کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 21
اب عمیر نے اپنی تلوار کو زہر آلود کرایا اور مدینہ جاکر مسجد ِنبوی میں پہنچ گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ اللہ کا دشمن عمیر بن وہب گلے میں تلوار حمائل کئے آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اجازت چاہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے آنے دو‘‘ تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے از راہِ احتیاط ا س کی تلوار کا پرتلا لپیٹ کر پکڑ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’اس کی تلوار چھوڑ دو‘‘ پھر عمیر سے پوچھا: ’’بتلاؤ کیسے آنا ہوا؟‘‘ عمیر کہنے لگا:’’میرا بیٹا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قید میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان فرما دیجئے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر یہی بات ہے تو پھر تلوار کیوں حمائل کر رکھی ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’یہ تلواریں پہلے بھلا کس کام آئیں ؟‘‘ …آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ٹھیک ٹھیک بات بتلاؤ ،ادھر ادھر کی مت ہانکو‘‘ اور پھر جب عمیر نے وہی پہلی بات دہرا دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بات یہ نہیں ، بلکہ تم مجھے قتل کرنے کے ارادہ سے آئے ہو۔ تم نے اور صفوان بن امیہ نے حطیم میں بیٹھ کر یہ یہ مشورہ کیا۔ صفوان نے تمہارے قرض اور بال بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری قبول کی اور تم مجھے قتل کرنے یہاں آگئے۔ لیکن یاد رکھو کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔‘‘ عمیر کو خیال آیا کہ یہ معاملہ ایسا تھا کہ جس کا صفوان کے علاوہ کسی کو بھی علم نہ تھا، اسے کس نے بتلایا؟ یقینا یہ نبی ہی ہوسکتا ہے۔ ا س خیال کے آتے ہی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کلمہ شہادت کا اقرار کیا اور مسلمان ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ’’اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور ا س کے بیٹے کو آزاد کردو‘‘ ادھر صفوان نے مکہ میں مشہور کر رکھا تھا کہ میں عنقریب تم لوگوں کو ایک خوشخبری سناؤں گا۔ مگر اس کے بجائے جب اسے عمیر کے مسلمان ہونے کی اطلاع ملی تو غصہ سے جل بھن گیا اور اس نے قسم کھالی کہ آئندہ وہ عمیر سے نہ کوئی بات کرے گا، نہ ہی اسے کسی قسم کا نفع پہنچائے گا۔ عمیر رضی اللہ عنہ اسلام سیکھ کر چند دن مکہ آئے اور یہاں آکر دعوت کا کام شروع کردیا اور ان کے ذریعہ بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔[1] ۱۰۔ یہود کا منصوبۂ قتل، ۴ ہجری بئر مَعُونَہ کے واقعہ نے ایک دفعہ پھر جنگ ِاحد کے چرکہ کو تازہ کردیا۔ ستر قاریوں میں سے صرف عمرو بن امیہ ضمری بچے جنہیں کافروں نے گرفتار کر لیا۔[2] آپ رضی اللہ عنہ ان کی قید سے نکل بھاگے اور مدینہ پہنچ کر اس دردناک واقعہ کی اطلاع دی۔ راستے میں آپ رضی اللہ عنہ نے غلطی سے دو آدمیوں کو دشمن سمجھ کر ان کا صفایا کردیا۔[3]حالانکہ وہ معاہد تھے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو بہت دکھ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب ہمیں ان دو آدمیوں کی دیت ادا کرنا ہوگی‘‘چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ رقم کی فراہمی میں مشغول ہوگئے۔
[1] ابن ہشام، ۱:۶۶۱ تا۶۶۳، بحوالہ الرحیق المختوم، ص:۳۷۲ [2] بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الرجیع و بئر معونۃ [3] الرحیق المختوم، ص:۴۶۱