کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 20
۷۔ وہ مشورۂ قتل جو ہجرت کا سبب بنا
اس مجلس مشاورت میں ابلیس خود بھی شامل ہوا تھا اور طے یہ پایا تھا کہ مختلف قبائل کے گیارہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کریں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح گھر سے نکلیں تو یکبارگی حملہ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتمہ کردیں ۔ اس مشاورت کی اطلاع بھی اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی۔ لہٰذا نہایت خفیہ طور پر ہجرت کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کفار و مشرکین مکہ کے شر سے بال بال بچ گئے اور ان لوگوں کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔
۸۔ ہجرت کے بعد گرفتاری یا قتل پر سو اونٹ انعام کی پیشکش
اس بھاری انعام کے لالچ میں لوگ فرداً فرداً بھی اور ٹولیاں بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ ایک ٹولی تو نقوش پا کا سراغ لگاتے لگاتے غارِ ثور کے دہانہ تک بھی پہنچ گئی۔ وہ اس قدر قریب ہوگئے تھے کہ اگر وہ اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر نظر پڑ سکتی تھی۔ اس موقعہ پر بھی صبروثبات کے اس پیکر ِاعظم میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی ۔انفرادی طور پر تعاقب کرنے والوں میں سراقہ بن مالک کا واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جس نے فی الواقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جالیا تھا۔ مگر قریب پہنچنے سے پیشتر اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی۔ پھر دوسری بار اور پھر تیسری بار بھی ٹھوکر کھائی۔ سراقہ سمجھ گئے کہ اس کی خیر اسی میں ہے کہ وہ ان کے قریب نہ جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر جو سراقہ کو دیکھا تو دعا کی : ’’اے اللہ! اسے گرا دے‘‘ چنانچہ اس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔[1]
۹۔ عمیر بن وہب جمہی کا مشورۂ قتل، ۲ ہجری
عمیر بھی ان شیاطین میں سے تھا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیتیں پہنچانے میں پیش پیش تھے۔ جنگ ِبدر میں اس کا بیٹا وہب گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں چلا گیا تو یہ شخص غصے سے بے تاب ہوگیا اور انتقام لینے کا تہیہ کرلیا۔ ایک دن عمیر نے حطیم میں بیٹھ کر صفوان بن امیہ کے کنویں میں پھینکے جانے والے مشرک مقتولین کی افتاد کا ذکر کیا۔ تو صفوان کہنے لگا:’’ واللہ! اب تو جینے کا کچھ مزہ نہیں ‘‘ عمیر کہنے لگا:
’’اگر میرے سر پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل و عیال نہ ہوتے تو میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاکر اسے قتل کر ڈالتا‘‘
صفوان کہنے لگا: ’’تمہارے قرض کی ادائیگی بھی میرے ذمہ رہی او ربال بچوں کی نگہداشت بھی۔ اگر میرے پا س کچھ کھانے کو ہوتا تو انہیں بھی ضرور ملے گا‘‘ عمیر نے کہا: ’’اچھا! پھر اس بات کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھنا‘‘ اور صفوان نے اس کا اقرار کر لیا۔
[1] بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ھجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم