کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 19
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی اجتماعی کوششیں ۵۔ مقاطعہ شعب ِابی طالب اس مقاطعہ کا تذکرہ سیرت کی کتابوں میں تفصیل سے ملتا ہے۔ جس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس معاشرتی بائیکاٹ کا اصل محرک ابوجہل تھا اور اس مقاطعہ کی شرائط یہ تھیں کہ بنو ہاشم اور بنو عبد ِمناف سے نہ کوئی لین دین کیا جائے، نہ بول چال رکھی جائے گی اور نہ ہی رشتہ ناطہ کیا جائے گا۔ تاآنکہ یہ لوگ مجبور ہو کر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ہمارے حوالہ نہ کردیں ۔ یہ یک طرفہ تحریر وادیٔ محصب [1] میں جمع ہو کر لکھی اور کعبہ کے دروازہ پر آویزاں کردی گئی۔ اب اس حوالگی کا مطلب تو سب جانتے ہیں کہ اس سے مشرکین مکہ کی مراد اسلام اور پیغمبر اسلام سب کو ختم کردینا تھا۔ تین سال کے صبر آزما اور پرمشقت دور کے بعد اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی اس تدبیر کو بھی ناکام بنا دیا۔ ۶۔ قتل کے ارادہ سے ابوطالب سے سودا بازی جب قریشی سرداروں کو یہ یقین ہوگیا کہ ابوطالب اپنے بھتیجے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت سے کسی صورت بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں تو انہوں نے ایک نہایت گھناؤنی سازش سے حضرت ابوطالب کو فریب دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سکیم تیار کی۔ چند قریشی سردار مکہ کے رئیس اعظم ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو ہمراہ لے کر ابوطالب کے پاس پہنچے اور کہا: ’’یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے۔ آپ اسے اپنی کفالت میں لے لیں اور اپنا متبنّیٰ بنالیں ۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حقدار ہوں گے اور اس کے عوض آپ اپنے بھیتجے کو ہمارے حوالہ کردیں ۔ جو ہمارے آباؤ اجداد کے دین کا مخالف اور ان کو احمق قرار دیتا ہے اور قوم کا شیرازہ منتشر کردیا ہے۔ ہم اسے قتل کردینا چاہتے ہیں اور یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔‘‘ ابوطالب کہنے لگے: ’’واللہ! یہ کتنا برا سودا ہے جس کی تم مجھے ترغیب دینے آئے ہو۔ تم چاہتے ہو کہ میں تو تمہارے بیٹے کو کھلاؤں پلاؤں اور پالوں پوسوں اور اس کے عوض تم میرا بیٹا مجھ سے لے کر اسے قتل کردو۔ واللہ! یہ ناممکن ہے۔‘‘ اس پر مطعم بن عدی ابوطالب سے کہنے لگا: ’’بخدا تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے مگر تم تو کسی بات کو قبول ہی نہیں کرتے‘‘ ابوطالب کہنے لگے: ’’بخدا یہ انصاف کی بات نہیں ہے۔ بلکہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر میرے مخالفین سے مل گئے ہو۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو ٹھیک ہے جو چاہو کرو‘‘[2] ابوطالب کے اس جواب سے مایوس ہو کر قریش کا یہ مجمع منتشر ہو کر چلا گیا۔
[1] بخاری، کتاب التوحید، باب فی المشیّۃ والارادۃ [2] ابن ہشام، ۱:۲۶۶،۲۶۷، بحوالہ الرحیق المختوم، ص:۱۴۵