کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 18
’’کیا تم ایک شخص کو محض اس لئے مار ڈالناچاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے، در آنحالے کہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نشانیاں بھی لے کر آیا ہے‘‘(۲۸:۴۰)
اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی روایت میں مزید تفصیل یہ ہے کہ ’’جب عقبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں چادر ڈال کر زور سے گھونٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے چیخ نکل گئی کہ ’’اپنے ساتھی کو بچاؤ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ چیخ سن کر ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کے لئے آئے تھے اور جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عقبہ کو دھکیل کر پرے ہٹا دیا تو مشرکین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر حملہ آور ہوگئے اور جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ واپس لوٹے تو ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ ہم ان کی چوٹی کا جو بال بھی چھوتے تھے وہ ہماری چٹکی کے ساتھ چلا آتا تھا۔[1]
۴۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ا سلام لانے سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کاارادہ
ایک دفعہ مشرکین مکہ کعبہ میں بیٹھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی افتاد سے نجات حاصل کرنے کے سلسلہ میں غوروفکر کر رہے تھے کہ حضرت عمر صلی اللہ علیہ وسلم جوش میں آکر کہنے لگے کہ میں ابھی جاکر یہ جھنجٹ ختم کئے دیتا ہوں ۔ چنانچہ ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر اس ارادہ سے نکل کھڑے ہوئے۔ راہ میں ایک مسلمان نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ملے، انہوں نے پوچھا: ’’عمر! آج کیا ارادے ہیں ؟‘‘ کہنے لگے: تمہارے پیغمبر کا کام تمام کرنے جاتا ہوں ۔‘‘نعیم رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو، تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوچکے ہیں ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی غصہ کی حالت میں ان کے گھر کا رخ کیا۔ دروازہ بند تھا۔ اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز آرہی تھی اور حضرت خباب رضی اللہ عنہ بن ارت انہیں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بے تحاشا اپنے بہنوئی کو پیٹنا شروع کردیا۔ ان کی بہن فاطمہ آڑے آگئیں تو اسے بھی مار مار کر لہولہان کردیا۔ فاطمہ کہنے لگیں : ’’عمر! اگر تم ہمیں مار بھی ڈالو تو بھی ہم اسلام کو چھوڑ نہیں سکتے۔‘‘ بہن کی اس بات پر آپ کا دل پسیج گیا۔ کہنے لگے: اچھا مجھے بھی یہ کلام سناؤ۔ قرآن سننے کے بعد آپ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ وہاں سے اٹھے اور سیدھے دارِارقم کی طرف چل پڑے۔ گو تلوار بدستور گردن میں حمائل تھی مگر ارادہ بدل چکا تھا۔ دارِارقم پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔مسلمانوں نے دراڑ سے دیکھا کہ عمر تلوار سنبھالے دروازے پر کھڑے ہیں ۔ جس سے مسلمان کچھ سہم گئے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ وہاں موجود تھے۔ کہنے لگے کہ دروازہ کھول دو۔ اگر عمر کسی برے ارادے سے آیا ہے تو اسی کی تلوار سے اس کا سرقلم کردوں گا۔ چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود آگے بڑھے اور عمر کا دامن کھینچ کر پوچھا۔’’عمر! کس ارادہ سے آئے ہو؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑے ادب سے کہا کہ اسلام [2]لانے کے لئے حاضر ہوا ہوں ۔ چنانچہ سب کے سامنے آپ نے کلمہ پڑھا۔ تو سب مسلمانوں نے نعرہ ٔ تکبیر بلند کیا۔ گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاارادۂ قتل ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام لانے کا سبب بن گیا۔
[1] مختصر سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ص:۱۳، بحوالہ الرحیق المختوم، ص:۱۵۳
[2] سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج:۱، ص:۲۲۸، بحوالہ طبقات ابن سعد و ابن عساکر و کامل لابن الاثیر