کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 17
تھے۔ کفار کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان مشرکین مکہ کی سب سے بڑی توہین کے مترادف تھا۔ چنانچہ دفعۃً ایک ہنگامہ بپا ہوگیا اور ہر طرف سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پل پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب (حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے پہلے خاوند سے بیٹے) حارث بن ابی ہالہ گھر میں موجود تھے۔ انہیں خبر ہوئی تو دوڑتے ہوئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانا چاہا۔ اب ہر طرف سے ان پر تلواریں پڑنے لگیں اور وہ شہید ہوگئے۔ اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون جو بہایا گیا۔[1]
۲۔ ابوجہل کا ارادۂ قتل
یہ واقعہ مختصراً یوں ہے کہ ایک دن ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ’’میں نے اللہ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ کسی وقت جب محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ میں جائیں تو بھاری پتھر سے ان کا سر کچل دوں ۔ تاکہ یہ روز کا جھگڑا ختم ہو۔ اس کے بعد چاہے تو تم لوگ مجھے بالکل بے یارومددگار چھوڑ دو کہ بنو عبد ِمناف مجھ سے جیسا جی چاہے سلوک کریں اور چاہے تو میری حفاظت کرو‘‘ اس کے ساتھیوں نے کہا:
’’واللہ! ہم تمہیں بے یارومددگار نہ چھوڑیں گے۔ لہٰذا تمہارا جو جی چاہے کر گزرو‘‘
اس تجویز کے مطابق ابوجہل ایک بھاری پتھر لے کر کعبہ میں پہنچا اور مناسب موقع کا انتظار کرنے لگا۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے تو ابوجہل پتھر لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا۔ مگر یکدم خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا۔ اس کا رنگ اُڑا ہوا تھا اور وہ پتھر کو بھی مشکل ہی سے نیچے رکھ سکا۔ اس کے ساتھی بڑے متعجب تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا: ’’ابوالحکم! یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ وہ کہنے لگا:
’’ جب میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایک مہیب شکل کا اونٹ مجھے نظر آیا۔ بخدا میں نے کسی اونٹ کی ایسی ڈراؤنی کھوپڑی، گردن اور ایسے ڈراؤنے دانت کبھی نہیں دیکھے، وہ اونٹ مجھے نگل جانا چاہتا تھا اور میں نے مشکل سے پیچھے ہٹ کر اپنی جان بچائی تھی‘‘[2]
۳۔ عقبہ بن ابی معیط کا ارادۂ قتل
عقبہ بن ابی معیط ہر وقت اس تاک میں رہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھونٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کردے اور ایسا موقعہ مشرکین کو اس وقت میسر آتا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں نماز ادا کر رہے ہوں ۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے پوچھا کہ مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو سخت ایذا پہنچائی وہ کیا تھی؟ تو انہوں نے اپنا چشم دید واقعہ یوں بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں ڈال کر اسے اس قدر بل دیئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلا گھٹنا شروع ہوگیا۔ آنکھیں باہر آئیں ا ور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام ہوجاتا کہ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آن پہنچے انہوں نے زور سے عقبہ کو پرے دھکیل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھڑا دیا اور فرمایا: [3]
﴿اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلاً اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ وَقَدْ جَائَ کُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّکُمْ﴾
[1] اصابہ فی احوال الصحابہ ذکر حارث بن ابی ہالہ، بحوالہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج:۱، ص:۳۱۴
[2] ابن ہشام، ۱:۲۹۸۔۲۹۹، بحوالہ الرحیق المختوم، ص:۱۵۱
[3] بخاری، کتاب المناقب، باب فضل ابی بکر نیز کتاب التفسیر سورۃ مؤمن