کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 8
طرح ایک عرصہ تک محدثانہ تنقید سے جانچ پڑ تال ہوتی رہی،اس نے بخاری ومسلم پر اعتماد میں بہت اضافہ کردیاہے۔اسی کو امت کے ہاں تلقی بالقبول کہاجاتاہے۔
بہرصورت ان پہلوؤں کے باوجود محترم مقالہ نگار نے علی سبیل التنزل صحیح بخاری کا اس پہلوسے بھی ایک مختصر جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کتاب میں صرف زبانی طریقہ روایت سے ہی کام نہیں لیا گیا بلکہ اس سے قبل کے تحریری مآخذ بھی اس کی تائید کرتے ہیں ۔اگرچہ روایت کو حافظہ تک منحصر رکھنے کا محدثین میں کوئی قائل نہیں کہ کیونکہ حفاظت وضبط کی دو قسمیں محدثین کے ہاں معروف ہیں :1۔ضبط صدر اور2۔ضبط کتابت،تاہم عامیانہ ذہن کے مغالطے دور کرنے کے لحاظ سے اس پہلو کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس پر ہم موصوف کے شکر گزار ہیں ۔(محدث)
صحیح بخاری پر منکرین حدیث کی طرف سے اکثر وبیشتر یہ اعتراض دہرایا جاتا ہے کہ یہ کتاب صرف زبانی روایات کی بنیاد پر تحریر کی گئی ہے۔اور یہ روایات بھی دو اڑھائی سو سال سے زبانی طور پر چلی آرہی تھیں اور تحریری طور پر ان کا کوئی وجود نہ تھا۔[1] ان کے بقول ایک مجلس میں مختلف افراد کے سامنے کوئی بات بیان کی جائے اور بعد میں ان سے اس بات کا سماع کیاجائے تو نہ صرف الفاظ بلکہ مفہوم تک مختلف ہوتے ہیں ۔ایسی صورت حال میں دو صدیوں سےزائد عرصہ گذر جانے کے بعد ان زبانی روایات کے سہارے لکھی جانے والی کتاب کی قطیعت اور صحت کا کیا اعتبار باقی رہ جاتا ہے۔
عربوں کے بے مثال حافظہ کی ساری دنیا ہی معترف ہے۔اس پر مستزاد جب ان مسلمان ہونے والے عربوں کو یہ وعید سنائی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرای پر جھوٹ بولنا دوزخ کاایندھن بننے کے مترادف ہے۔تو وہ لوگ بہت ہی محتاط ہوگئے اور روایت حدیث میں الفاظ کے بیان کرنے میں احتیاط کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔لیکن ان سب سے قطع نظر ہم یہاں پر صرف صحیح بخاری کا جب اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کہ آیا واقعتاً یہ صرف زبانی روایات کی بنیاد پر ہی لکھی جانے والی کتاب ہے یا اس کے کچھ تحریری ماخذ ومصادر بھی ہیں ؟ نیز اس سے زبانی تقدم رکھنے والی کتب حدیث پائی جاتی ہیں یا نہیں ؟اور ان کتب کی روایات اور بخاری کی روایات کے متون میں لفظی مطابقت پائی جاتی ہے یا نہیں ؟ مذکورہ بالا نکات پر جب ہم سلسلہ تحقیق آگے بڑھاتے ہیں تو ہمیں تاریخی چوراہے میں منکرین حدیث کے اس اعتراض کی صداقت کا بھانڈا پھوٹتا نظر آتا ہے۔
بخاری کے مآخذ ومصادر کے حوالے سے عالم اسلام کے نامور ترک محقق جناب ڈاکٹر فواد میزگین نے 1956ء میں ایک تحقیقی مقالہ بنام"مصادر البخاری"(Buharinin Kay Naklari) [2]) تحریر کیا تھا جو 406 صفحات پر استنبول سے مطبوع ہے۔اس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ صحیح بخاری کی ذکر کردہ لغوی معلومات تقریبا تمام تر ابو عبیدہ کی "مجاز القرآن"[3] اور الفراء کی "معانی القرآن"[4] سے نقل کردہ ہیں ۔اس کے علاوہ موطا امام مالک(179ھ) سے روایات بخاری کی پانچ صد سے زائد مقامات پر
[1] پرویز غلام احمد ،مقام حدیث (لاہور 1992ء) ص 13،15،17۔
[2] راقم نے اس تحقیقی مقالے کا ترکی سے اردو ترجمہ شروع کررکھا ہے۔
[3] ابو عبیدہ ،معمر بن مثنی التیمی(210ھ) مجاز القرآن(قاہرہ ،1954،عارض باصولہ وعلق علیہ ڈاکٹر محمد فواد سیزگین)
[4] ابو زکریا یحییٰ بن زیاد الفراء(215ھ) معانی القرآن (مکتبہ سلیمانیہ ،استنبول) کتاب نمبر66(حصہ بغداد لی وھی)