کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 6
عورتوں کو طلاق کا حق دینے کا منصوبہ بن رہا ہے اور یہ این جی اوز کی عورتوں کا دیرینہ مطالبہ بھی ہے اگر ایسا ہو گیا تو یہ امر سراسرمداخلت فی الدین شمار ہو گا۔
ابھی تک دینی جماعتوں کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کی کھل کر مخالفت نہیں کی گئی ۔اس کی بنیادی وجہ غالباًموجودہ حکومت کی کشمیر پالیسی اور سی ٹی بی ٹی کے معاملے میں امریکی دباؤ کو قبول نہ کرنے کی پالیسی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محض حکومت کی قابل تعریف کشمیر پالیسی کی وجہ سے دیگر غیر اسلامی پالیسیوں سے چشم پوشی کا جواز نکلتا ہے؟ایوب خان نے عائلی قوانین کو نافذ کر کے جس سیکولر ازم کی بنیادیں رکھ دی تھیں ۔آج اسی سیکولر ازم کی عمارت کے بقیہ حصہ جات تعمیر کر کے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جارہاہے سیکولراور اسلام دشمن این جی اوز مملکت پاکستان میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں ہر طرح کے قوانین بنانے کے لیے آزاد ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔ قاضی حسین احمد صاحب نے پاکستان میں کمال ازم کے نفاذ کی راہ میں مزاحمت پیش کرنے کا اعلان کیا تھا کمال ازم تو مرحلہ وارنافذ کیا جا رہا ہےمگر مزاحمت کا کہیں نام و نشان نہیں محض بیانات سے تو ایسے ثقافتی و تہذیبی انقلابات کا راستہ نہیں روکا جاسکتا ۔مولانا فضل الرحمٰن نے بھی این جی اوز کے خلاف جہاد کااعلان کیا ہے ۔مگر یہ جہاد بھی فی الحال لسانی جہاد تک محدود ہے عملی جہاد کی صورتیں سامنے نہیں آرہی ۔گزشتہ برسوں میں جب بھی بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتوں نے قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کے متعلق مذکورہ تبدیلی کا عندیہ دیا۔ دینی جماعتوں نے فوری اور شدید رد عمل کا اظہارکیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے اعلان کے خلاف بھی ایسا شدید ردعمل ظاہر کر سکیں گی؟اگر نہیں تو پھر کیا ناموس رسول کے تحفظ کے تقاضے بھی حکومتوں کو بدلنے کے ساتھ بدل جایا کرتے ہیں ؟کیا اب وقت نہیں آگیا کہ وہ آگے بڑھ کر ابن جی اوز کی مداخلت فی الدین کا راستہ روکیں ۔
یہ وہ سوالات ہیں اگر ان کا فوری جواب تلاش نہ کیا گیا تو پاکستان کا اسلامی تشخص برقرار رکھنا مشکل ہو جا ئے گا ۔آخر میں ہم صدر پاکستان جناب رفیق تارڈ کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتےہیں ۔انہوں نے روزنامہ خبریں میں اپنے ایک مضمون میں تحریر فرمایا تھا۔
"دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی جذباتی وابستگی رکھتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا معاملہ ہوتو پھر یہ نہیں دیکھا جا تا کہ نام نہاد اہم شخصیتوں کا حدود اربعہ کیا ہے؟ وہ کتنی طاقتور ہیں اور کیا چاہتی ہیں پھر مسلمان اپنے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جان اولاد ،مال،
والدین غرضیکہ ہر قیمتی متاع قربان کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں "(24ا/اپریل1997ء) یہ بات انہوں نے اس وقت تحریر کی تھی جب وہ محض سینٹ کے ایک رکن تھے اب جبکہ وہ صدر پاکستان ہیں وہ اپنی جان ،مال ، اولاد وغیرہ قربان کیے بغیر بھی اس سلسلے میں بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔
ایک محب رسول صدر پاکستان کے ہوتے ہوئے قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو عملاً غیر مؤثر بنادیا جاتا ہے تو کیا وہ یہ گوارا فرما لیں گے ؟؟