کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 56
تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے جسے وہ صبر وہمت سے برداشت کرتا ہے"
شاعر حضرات نے بھی اس خوبی کو موضوع سخن بنایا ہے اور اس بارے میں خوب جولانیاں دکھائی ہیں :
قصیدہ ابن المدینہ میں ہے کہ برا بھلا کہنے والے کو کس طرح جواب دیاجاتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں :
لئن ساءني أن نلتني بمساءة لقد سرني أني خطرت ببالك
"آپ کے برا بھلاکہنے سے اگرچہ مجھے دکھ ہوا ہے،لیکن حسرت تو اس بات کی ہے کہ آ پ نے مجھے یاد رکھاہے۔بھلایا تو نہیں "(العقد الفرید:ص2/275)۔۔۔مرزاغالب کہتے ہیں ۔
قطع کیجئے نہ تعلق ہم سے محبت نہ ہوتو عداوت ہی سہی
طاہر بن عبدالعزیز نے اس موضوع پر یوں اظہار سخن کیا ہے:
إذا ما خليلي أسا مرَّةً وقد كان مِن قَبْل ذا مجمِلا
تحمَّلت ما كان مِن ذنبه فلم يُفسد الآخر الأوَّلا
"جب میرے کسی پرانے احسان مند دوست سے کوئی برائی سرزد ہوجاتی ہے تو میں اس کے سابقہ احسانات کو یاد کر تاہوں ۔اس طرح پرانی دوستی بگڑنے نہیں پاتی"(العقد الفرید:2/275)(بعض کتابوں میں " ذكرتَ المقَدَّمَ مِن فعلِه"کی بجائے تحمَّلت ما كان مِن ذنبهکے لف لفظ ملتے ہیں ۔میں اس کے گناہ کو برداشت کرتا ہوں ۔"
احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں ۔
کہ قیس بن عاصم منقری ہتھیار باندھے ا پنے گھر کے صحن میں بیٹھے ا پنی قوم سے باتیں کررہے تھے کہ ان کے پاس دو آدمیوں کو لایاگیا۔ایک کی مشکیں کسی ہوئیں تھیں اور دوسرا مقتول تھا۔قیس بن عاصم سے کہا گیا کہ آ پ کے بھتیجے نے آپ کے بیٹے کو قتل کردیا ہے حالانکہ وہ سراسر بے قصور تھا۔
قیس بن عاصم اپنے بھتیجے کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے تو اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور اپنے تیر سے اپنے آپ کو ہی نشانہ بنایا ہے، اپنے چچازاد بھائی کو قتل کردیا ہے۔پھر اپنے دوسرے بیٹے کو فرمایا:اٹھو اپنے بھائی کی تجہیز وتکفین کا بندوبست کرو،اس کی ماں کو ایک سواونٹنی دیت ادا کرو۔وہ بے سہارا ہوگئی ہے اور اپنے چچازاد بھائی کی مشکیں کھول دو۔
فارسی ادب میں بھی اس موضوع پر بہت کچھ ملتا ہے اور کسی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے۔
لذتے درعفواست انتقام نیست ایں کار برکریماں دشوار نیست
"معاف کردینے سے جو لذت وسرور حاصل ہوتاہے ،انتقام لینے میں وہ مزید کہاں ۔۔۔نیک لوگوں کے لئے ایسا کرنا کوئی مشکل نہیں "(العقد الفرید:ص2/275)
میرے رب کو ایسے ہی لوگ پسند ہیں ۔
ارشاد ہے: ﴿وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِين﴾ (آل عمران:134)
"وہ لوگ غصے کو پی جاتے ،لوگوں سے درگزر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے"
حالانکہ اللہ کی طرف سے آ پ کی ذمہ داری صرف اس حد تک تھی کہ آپ اللہ کے دین کو لوگوں تک