کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 55
4۔ قیدیوں کو بلامعاوضہ خواب کی تعبیر بتا دی ۔
5۔عزیز مصر کو خواب کی تعبیر قیدی ہونے کے باوجود بتائی۔
6۔اپنے ساتھی قیدی جسے رہائی کے وقت آ پ نے عزیز مصر کےلئے یہ پیغام دیا تھاکہ انہیں میرے معاملہ پر نظر ثانی کرنے کے لئے یاد دلانا لیکن وہ عزیز مصر کو یہ بات کو یہ بات یاد نہ دلاسکا۔حضرت یوسف علیہ السلام سے جب دوبارہ ملاقات ہوئی تو آپ نےاس سے ناراضگی کا اظہار نہ فرمایا۔
7۔اقتدار ملنے کے بعد اپنے بھائیوں کی مدد فرمائی اور انہیں قحط سالی میں غلہ کی فراہمی جاری رکھی۔
8۔بھائیوں نے چوری کا الزام لگایا۔لیکن عظیم عہدے پر فائز ہونے کے باوجود انہیں کچھ نہ کہا اور ان کی بات کو بڑی ہمت سے برداشت کیا۔
9۔قیدی بنانے پر عزیز مصر سے کوئی جھگڑا پیدا نہیں کیا۔
10۔اقتدار حاصل ہونے کے بعد آپے سے باہر نہیں ہوئے بلکہ پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے مطیع وفرمانبردار بن گئے اور مخلوق کو قحط سالی کے عذاب سے محفوظ رکھنے کے لئے پوری دیانت داری سے سرگرم رہے۔
صرف چند اسباب ذکر کردیئے گئے ہیں ۔جن کی بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بڑے احترام سے یاد فرمایا کرتے تھے۔قرآن پاک کی آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَلا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ﴾ (حم السجدہ:34)
"نیکی اور بدی برابر نہیں ہوسکتی۔نہایت عمدہ طریقے سے معاملہ کو رفع دفع فرمایا کریں "
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عملی زندگی میں اس آیت مبارکہ کا مکمل نمونہ تھے۔آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین آپ کی پیروی کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے کہا:"میں آپ کو ایسی گالی دوں گا جو قبر میں بھی آ پ کے ساتھ داخل ہوگی"(یعنی بدنامی مرتے دم تک آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گی)تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں صرف اتناہی کہا:" میرے ساتھ نہیں بلکہ تمہارے ساتھ قبر میں داخل ہوگی۔"
(العقد الفرید:ص2/275)
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غفاری کو کسی شخص نے برا بھلا کہا تو انہوں نے اس شخص سے کہا:
"اللہ کے بندے! مجھے برا بھلا کہنے میں مصروف نہ ر ہو۔میل جول کی کوئی تدبیر ہونی چاہیے۔ہماری وجہ سے جو شخص اللہ تعالیٰ کا نافرمان بنتا ہے،ہم اس سے انتقام نہیں لیتے۔بلکہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ مطیع وفرمانبردار بن جاتے ہیں ۔"
انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو بڑی عمدگی کے ساتھ اپنے معاملات میں سمو لیا تھا:
ما تجرّع عَبد فى الدنيا جرْعةً أحب إلى اللّٰه من جَرْعة غيظ رَدّها بحِلْم أو جَرْعة مُصيبة ردها يصبر (ابن ماجہ۔کتاب الذہد)
"انسان دنیا میں کتنے ہی گھونٹ بھرتاہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ غیظ وغضب کا وہ کڑوا گھونٹ ہے۔جس کا جواب انسان نہایت بردباری سے دیتا ہے پھر مصائب سے بھر پور وہ تلخ گھونٹ اللہ