کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 54
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ کو لکھا کہ وہ مکہ میں غلہ لے جانے کی اجازت دے دیں ۔(سیرۃ ابن ہشام:4/439)
مالک بن عوف پر نظر کرم:
ہوازن اور ثقیف کے قبائل جو حنین کےمقام پر آباد تھے۔بہت جنگجو تیر انداز تھے۔فتح مکہ کے بعد انہیں خیال ہوا کہ کہیں مسلمان ہم پر حملہ نہ کردیں ۔لہذا ان کا سردار مالک بن عوف بیس ہزار آدمیوں کے لے کر مسلمانوں پرحملہ کرنے کے لئے نکلا۔مسلمانوں کا لشکر بھی مقام حنین پر پہنچا۔ہوازن اور ثقیف کے بیس ہزار جنگجو تیر اندازوں نے صبح کی تاریکی میں حملہ کردیا۔پہلے تومسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے آخر کار تما م مسلمان نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہوئے۔آپ نے بلند آواز سے فرمایا:
أنا النبى لا كذب أنا ابن عبد المطلب(بخاری،مسلم)
"میں اللہ کا نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں یہ جھوٹ نہیں ۔۔۔میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں "
اور پھر مشرکوں پر حملہ کاحکم د یا اور ساتھ ہی ایک مشت خاک دشمنوں کی طرف پھینکی اور فرمایا:
ساءت الوجوه (مسلم)"برے ہوئے یہ چہرے"
ایک دوسرے روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انهرموا ورب محمد"قسم ہے رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی انہوں نے شکست کھائی"
اس پر دشمنوں کے قدم اکھڑ گئے۔کافی سارے بھاگ گئے اور ایک بڑی تعداد کو مسلمانوں نے قیدی بنا لیا۔
شکست کے بعد ہوازن اور ثقیف کے سردار مالک بن عوف نے بھاگ کر طائف میں پناہ لی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں سے پوچھا کہ تمہارا سرداار کہاں ہےجس نے تمہیں اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑنے پراکسایا تھا؟تو لوگوں نے بتایا کہ وہ طائف بھاگ گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ کے لوگوں سے مخاطب ہوکرفرمایا کہ اسے میرا یہ پیغام پہنچادو کہ اگر وہ میرے پاس آجائے تو میں نہ صرف اسے اس کے اہل وعیال اور مال واپس کردوں گا بلکہ اپنی طرف سے سو اونٹ بھی دوں گا۔مالک بن عوف جو کہ طائف میں بہت پریشان حال تھا یہ خبر سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہواتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اسے اپنی قوم کی سرداری کے علاوہ چند دیگر قبائل کاسردار بھی بنادیا۔مورخین لکھتے ہیں کہ مالک بن عوف نے مسلمان ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں چند شعر بھی کہے ہیں ۔(الاصابہ:3/331)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عفوودرگزر کرنے والے شخص سے بے حد محبت فرماتے تھے شاید آپ جانتے ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت یوسف علیہ السلام کی بے حد تعریف فرمایا کرتے تھے۔ان کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔
الكريم بن الكريم بن الكريم بن الكريم يوسف بن يعقوب بن اسحاق بن ابراهيم(بخاری:کتاب التفسیر،ص5/216)
کبھی آپ نے اس بات پرغور کیا کہ ایسا کیونکر تھا۔ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
1۔بھائیوں نے کنوئیں میں پھینکا،ان کو معاف فرمایا۔
2۔غلام بنا کر بیچنے والوں سے کبھی کوئی باز پرس نہ کی۔
3۔عزیز مصر کی بیوی نے عفت وعصمت کو داغدار کرنا چاہا۔اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہونے پر جیل میں بھجوادیا۔اقتدار ملنے کے باوجود کبھی انتقام لینے کی کوشش نہ کی۔