کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 53
قتل کرنے کے لئے مدینہ پہنچا،موقع کی تلاش میں تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے دیکھ لیا۔اس کی تلوار چھین کر قابو میں کرلیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سےدریافت فرمایا کہ مدینہ کیسے آنا ہوا؟
اس نے جواب دیا کہ میرا ایک بیٹا آ پ کی قید میں ہے،اس کی خیریت دریافت کرنا چاہتا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے گلے میں لٹکی ہوئی تلوار دیکھ کر فرمایا:تلوار کو گلے میں لٹکانے کا کیا مطلب ہے۔عمیر نے کہا کہ میں جلدی میں اسے گھر رکھنا بھول گیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی گفتگو سننے کے بعد فرمایا:
عمیر! تم صفوان بن اُمیہ کے ساتھ ایک حجرے میں بیٹھ کر میرے قتل کے منصوبے بناتے رہے ہو اور صفوان نے اس بدلے تمہارا سارا قرض معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے اور آئندہ کے لئے تمہارے گھر والوں کا خرچہ بھی اپنے ذمہ لے لیاہے۔حقیقت بھی یہی تھی۔عمیر یہ سب کچھ سن کر بہت پریشان ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سارے واقعہ کی اطلاع کیسے پہنچی۔آخر کار اس نے سازش کا اعتراف کیا اور کہنے لگا:
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آ پ واقعی اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیٹھنے کے لئے کہا اور فرمایا:ہمیں آپ سے ہمدردی ہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے فرمایا:اپنے بھائی کو قرآن سکھاؤ اور اس کے قیدی بیٹے کو آزاد کردو۔(الاصابہ:ص3/26)
مکہ والوں کے لئے اناج کی بحالی:
کسی حکومت یا اہل ملک کی مخالفت میں بے شمار حربے استعمال کئے جاتے ہیں ۔تاکہ انہیں پریشانیوں میں مبتلا کیا جائے اور مشکلات کی پیداکی جائیں ۔یہ حربے سیاسی بھی ہوتے ہیں اور معاشی بھی۔تاکہ کسی ملک کو کمزور کرکے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا جائے اور اپنے مفادات حاصل کرنے کےلئے راہ ہموار کی جائے۔مکہ والوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بنی ہاشم کو تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور رکھا۔کھانے پینے سے محروم کردیا۔بھوک اور پیاس سے بڑے چھوٹے چمڑے وغیرہ کھانے پر مجبور ہوگئے۔جن لوگوں نے یہ حرکتیں کیں انہیں کیا پتہ تھا کہ جس رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو آج ہم یہ تکلیف دے کر خوش ہورہے ہیں ،ہمیں اسی کے دروازے پر بھیک مانگنے کی نوبت آئے گی۔واقعہ اس طرح ہوا:
"ثمامہ بن اثال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین دن تک مسلمانوں کی قید میں رہنے کے بعد آ پ کے حسن سلوک سے اتنے متاثر ہوئے کہ آزادی ملتے ہی اسلام لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کرنے کی اجازت طلب کی۔جب مکہ پہنچے تو قریش مکہ نے بے دین ہونے کا طعنہ دیا یعنی کہا کہ اے ثمامہ ! تم نے آباء واجداد کا دین چھوڑدیا ہے۔قریش کے ان طعنوں سے متاثر ہوئے ہوئے بغیر حضرت ثمامہ نے سرعام فرمایا کہ میں نے اس دین کی اتباع کی ہے جو سب سے بہتر ہے۔اور جو دین محمدی ہے۔اے اہل مکہ!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر اب تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا۔یمامہ پہنچ کر آپ نے قبیلہ کو حکم دیا کہ مکہ والوں کو غلہ قطعاً مہیا نہ کیاجائے۔اہل مکہ نے اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی اور لکھا کہ:
’’إنك تأمر بصلة الرحم، وإنك قد قطعت أرحامنا، وقد قتلت الآباء بالسيف والأبناء بالجوع‘‘
(آپ صلہ رحمی کا پرچار کرتے ہیں حالانکہ آپ نے ہماری رشتہ داری کو ختم کردیا ہے۔ہمارے آباؤاجداد کو تلوار سے قتل کیا اور ہماری اولادوں کو بھوک کے ذریعہ مارنے کا منصوبہ بنایا) یہ خط پڑھ کر اللہ کے