کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 52
نہیں کرنا چاہتی تھی۔اس شرمندگی کو پردے کی اوٹ میں چھپا کر عفووردگزر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتی ہے بیعت کا اظہار کرتی ہے۔رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اگر ایسی سخت دشمن کو حاضری کی اجازت نہ د یتے تو اسلام یا مسلمانوں کو کیا فرق پڑتا،اسلام کی سربلندی اورترقی کے لئے ہند کا مسلمان ہوناکوئی ضروری تو نہ تھا۔جبکہ ہزاروں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہورہے تھے۔لیکن اس وقت بھی گفتگو میں شوخی اور مکالمہ بازی کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔۔۔
ہند:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ہم سے کن باتوں پر عہدلیتے ہیں ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :تم کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراؤ گی۔
ہند:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہم سے ان باتوں کا عہد لیتے،جن کا عہد آپ نے مردوں سے نہیں لیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :تم کبھی چوری نہ کروگی۔
ہند!میں تو اپنے خاوند(ابوسفیان) کے مال میں سے لے لیاکرتی ہوں ۔مجھے معلوم نہیں ،اسے آپ چوری سمجھتے ہیں یا نہیں ۔ابوسفیان بھی اس محفل میں موجود تھے اور مسلمان ہوچکے تھے۔بولے جو کچھ گزرچکا ،وہ معاف ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کے مال میں سے ا تنا لے سکتی ہے جس سے اس کی اولاد اور گھر کی ضروریات پوری ہوسکیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اور بدکاری نہ کرنا۔
ہند:کیا کوئی آزاد خود مختار عورت بھی زنا کرتی ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اولاد کو قتل نہ کرنا۔
ہند: ربَّيناهم صِغارًا، وقتلْتَهم يومَ بدْرٍ كِبارًا، وهم أعْلم (بچپن میں ہم نے انہیں پالا پوسا اور جب وہ بڑے ہوئے تو آپ نے انہیں جنگ بدر میں قتل کردیا۔اب معاملہ ان کا اور آپ کا ہے)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پاس موجود تھے،یہ بات سن کر ہنس پڑے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی پر بہتان نہ لگانا۔
ہند!اللہ کی قسم کسی پر بہتان باندھنا تو نہایت قبیح بات ہے۔واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسن اخلاق اور نیکی کے سوا کسی بات کا حکم نہیں دیتے۔(زرقانی:2/316)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی نیکی کے کام میں نافرمانی اور انکار سے کام نہ لینا۔
ہند!ہم یہاں آپ کی محفل میں نافرمانی اور انکار کا ارادہ لے کر نہیں آئیں !
آپ اندازہ کیجیے کہ زیر دست آدمی معاہدہ کے وقت اگر اس طرح کا انداز اختیار کرتاہے۔تو فاتح اس طرح کی شوخیاں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔وہ اپنی ہتک اور برتری(Supermecy) کے منافی خیال کر تے ہوئے مد مقابل کو جھڑک اور ڈانٹ سکتاہے تاکہ اس کی برتری کی ہیبت اور شان قائم رہے۔لیکن رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تمام شوخیوں اور مکالمہ بازیوں کوشان عفو میں ڈبو دیتے ہیں اورحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فر ماتے ہیں کہ ان سے بیعت لے لو۔بیعت کے بعد آپ ان کے لئے دعا فرماتے ہیں ۔(کامل از ابن اثیر:2/96)
عمیر بن وہب کے لئے معافی کا اعلان:۔
قریش مکہ کے اکسانے پر عمیر بن وہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو