کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 51
کیا۔ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خون مباح قراردے دیا تھااس لیے یہ شخص بھاگ کر پہلے طائف چلا گیا اور پھر وہاں سے مدینہ منورہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا اور آپ سے اپنے قصور کی معانی چاہی رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دامن رحمت میں جگہ دی اور معاف کردیا۔انسانی تاریخ میں آپ نے محسنوں کے قاتلوں کو صرف اللہ کی رضا کے لیے معاف کر دینا یہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا خاصہ ہو سکتا ہے ورنہ ایسی حالت میں عربوں کے ہاں صدیوں قتل و غارت کا بازار گرم رہتا تھا (البدایہ : ص2/594)
ابو محذورہ کو معاف کرنا:
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ کے دن جب بیت اللہ کی چھت پرچڑھ کر اذان دی تو ابو محذورہ جہمی اور چند دوسرے نوجوان نے ان کی اذان کا مذاق اڑایا اور اذان کی نقل اتاری۔ابو محذورہ کی آواز بہت بلند ارو سریلی تھی جیسے ہی آپ نے اس کی آواز سنی تو انہیں حاضر ہونے کا حکم دیا۔دریافت فرمایا کہ تم میں سے کون شخص ہے۔جس کی آواز میں نے سنی ہے۔سب جوانوں نے ابو محذورہ کی طرف اشارہ کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روک لیا اور باقی جوانوں کو چلے جانے کا حکم دیا۔ابو محذورہ آپ کے سامنے کھڑے ہوئےتھے اور ا پنے دل میں سوچ رہے تھے کہ مجھے قتل کردیا جائےگا۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایاکہ ابو محذورہ اذان دو۔چنانچہ میں نے بادل نخواستہ اذان دی۔اذان سننے کے بعد آپ نے مجھے ایک تھیلی عطا فرمائی جس میں چنددرہم تھے اس کے بعد میرے سر،پیشانی،سینہ اور پیٹ پر ناف تک دست مبارک پھیرا۔زبان مبارک سےمیرے لئے برکت کی دعاکی۔ابو محذورہ بیان کرتے ہیں کہ دست مبارک کا پھیرنا تھا کہ میرا دل آپ کے خلافت نفرت کی بجائے محبت واُلفت سے لبریز ہوگیا۔میں نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے مکہ کاموذن مقرر فرمادیجئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آپ کو موذن مقرر کیا جاتاہے۔میں نے امیر مکہ عتاب بن اُسید کو اس بات کی اطلاع دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اذان دینا شروع کردی اور پوری زندگی اس ذمہ داری کونبھایا(الاستیعاب ص4/137)
ایسی حالت میں جبکہ فاتح کی حیثیت سے کوئی شخص کسی شہر میں داخل ہو،مفتوح قوم کے لوگ غلاموں کی طرح سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں ۔ان میں سے پھر کوئی آدمی فاتحین کی مرضی کے خلاف بات کرے ان کی خواہشات کا احترام نہ کرے بلکہ عین اسی وقت جبکہ انتقامی جذبات عروج پر ہوں ،ایسی حرکات کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کیا جاتا۔یہ فطرت انسانی کے خلاف ہے۔لیکن ایسے ہی حالات اور وقت پر صرف اللہ کی رضا کے لئے انتقامی جذبات کے طوفان کو قابو میں لانا،دشمنی کو محبت وشفقت کے دامن میں لپیٹ کر دشمن کو سینے سے لگالینا حبیب رب العالمین ہی کی صفات کا حصہ ہیں ۔
ہند بنت عتبہ زوجہ ابو سفیان:
عورتوں کی دشمنی اور انتقام دنیا میں ضرب المثل ہے۔ہند نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کروایا اور دشمنی کی آگ میں ا س قدر جل رہی تھی کہ شہادت کے بعد آپ کا سینہ مبارک چاک کرکے کلیجہ نکالا اور اسے چبایا۔اس سے سینے کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔اس قدر دشمنی اور کدورت رکھنے والا انسان بھی کیا معافی کا مستحق ہوسکتا ہے۔
چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ر سول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پایاں رحمت سے ایسے لوگ بھی فیض یاب ہوئے آپ نے اسے بھی شرف بیعت سے نوازا ان کی بیعت کا واقعہ مورخین نے اس طرح نقل کیا ہے۔
"ہند جب بیعت کےلیے حاضر خدمت ہوئی تو چہرہ نقاب سے چھپایا ہوا تھا۔دشمنی کی ندامت کو ظاہر