کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 50
"طاقتور وہ نہیں جو مد مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہوتا ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے "
قرآن مجید میں مؤمنوں کی صفات کا تذکرہ فرماتے ہوئے اللہ رب العالمین نے ان کی چند صفات کی نشاندہی کی:
﴿ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ﴾ (آل عمران:134)
"وہ غصہ کو پی لیتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی مجسم تفسیر تھے۔طعنے دینے والوں مجنوں اور جادو کر کہنے والوں راہ چلنے ہوئے اوپرسے سر مبارک میں گندگی پھینکنے کے ایسے والوں بلکہ خون کے پیاسوں کو جس طرح عفوو درگزر سے نوازا وہ آپ کی ہستی کا ہی خاصہ ہے۔ آپ کی زندگی کے ایسے چند ایک واقعات پیش خدمت ہیں ۔
٭ سرداران قریش کو معاف کرنا:
فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہونے کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان دینے کا حکم دیا ۔سرداران قریش میں سے ابو سفیان عتاب و خالد بن اُسید حارث بن ہشام وغیرہ بیت اللہ کے صحن میں موجود تھے۔ عتاب اور خالد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے والد کی بڑی عزت رکھی کہ وہ اس اذان کی آواز کو سننے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوگئے ۔حارث نے کہاخدا کی قسم!اگر مجھے یقین ہوجائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق پر ہیں تو میں آُ کی اطاعت میں آجاؤں ۔ابو سفیان نے کہا کہ میں خاموشی اختیار کرتا ہوں اور اپنی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکالنا چاہتا ۔کیونکہ میرے منہ سے نکلی ہوئی بات کے متعلق یہ سنگریزے بھی آپ کو باخبر کر دیں گے اسی اثنا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو آپ نے ان سرداروں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمھاری گفتگوکے بارے میں مجھے اطلاع مل چکی ہے آپ نے ان کی ساری گفتگو کو دہرا دیا۔حارث اور عتاب نے فوراًآپ کی رسالت کا اقرار لیا ۔مسلمان ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتاب کو مکہ کا والی مقرر کردیا۔
(البدایہ والنہایہ :ص4/303۔۔۔زرقانی :ص 2/346)
ہبار بن اسود کے لیے معافی :
اس شخص نے اسلام سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ انتہائی گستاخانہ رویہ اور بد سلوکی کا مظاہرہ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دلی دکھ پہنچایا ۔کیونکہ اولاد کی تکلیف والدین کے لیے نہایت ہی باعث اذیت ہوا کرتی ہے۔لیکن اس طرز عمل کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خون مباح ہونے کے باوجود اس کااسلام لانا قبول فرمایا اور اسے معاف کردیا۔واقعہ کی حقیقت مؤرخین نے یوں بیان کی ہے۔(الاصابہ : 565۔۔۔زرقانی 2/315)
"ہجرت کے ابتدائی ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا زوجہ ابو العاص بن ربیع مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے جارہی تھیں ۔ہبار بن اسود نے چند اوباشوں کے ساتھ مل کر ان کا راستہ روکا اور انہیں ایک نیز ہ ماراجس سے وہ سواری سے گرپڑیں ۔بیان کیا جا تا ہے کہ آپ ان دنوں حاملہ تھیں آپ کے گرنے سے حمل ساقط ہو گیا اور یہی واقعہ آپ کی موت کا سبب بنا ۔ لیکن جب یہ شخص فتح مکہ کے دن آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہبار بن اسود ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے اسے دیکھ لیا ہے کسی نے بڑھ کر اسے مارنا چاہا تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا۔ہبار نے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسلام قبول کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف فرمادیا۔
وحشی بن حرب کے لیے معانی:
سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو تعلق آقا مدار صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا وہ کسی مسلمان سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان نچھاور کرتے تھے غزوہ احدمیں وحشی نے گھات لگا کر آپ کو شہید