کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 5
وہ قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت مقدمات کو حتیٰ الامکان حد تک درج نہ ہونے دیں ۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور دیگر دینی جماعتوں کی طرف سے مسلسل یہ شکایات کی جاتی رہی ہیں کہ ان کی طرف سے باربار گذارش کے باوجود ایسے افراد کے خلاف ضلعی انتظامیہ مقدمات درج نہیں کرتی جو واضح طور پر توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں ۔مرشد مسیح نامی ایک شخص گذشتہ ایک سال سے لاہور میں احمدی لاہوری گروہ کے ہیڈکوارٹر میں چھپا ہوا ہے ۔اس بد بخت نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف گستاخانہ کلمات لکھ کر متعدد علماء کرام کوارسال کیے تھے ۔یہ بات جمعیت علمائے اسلام کے راہنما مولانا اجمل قادری اور مولانا اسمٰعیل شجاع آباد ی نے 20سے زیادہ دینی جماعتوں کے نمائندوں کے اجلاس کے دوران کہی جو جولائی 1999ءمیں منعقد کیا گیا تھا ۔
جنرل پرویز مشرف نے جس انسانی حقوق کنونشن میں مذکورہ اعلان کیا۔وہ احترام انسانیت کے فروغ کے لیے بلایا گیا تھا تکریم آدم کو دورجدید کے انسانی حقوق کے تصور میں اہم مقام حاصل ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک فرد کے انسانی حقوق کے متعلق اس قدر حساسبت کا اظہار کرنے والے آخر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کو فراموش کیوں کر جاتے ہیں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے تحفظ کےکے حقوق مسلمانوں کے نزدیک اُم الحقوق ہیں ۔[1]انسانی حقوق کا کوئی بھی چارٹر کا غذ کے ایک بیکار ٹکڑے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا اگر یہ کائنات کی عظیم ترین ہستی کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی چند دیگر پالیسیاں بھی اسلامی شریعت کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتیں ۔سیاسی معاملات میں خواتین کی مساوی شرکت شریعت اسلامیہ کی روح کے منافی ہے ۔[2]عورت اور مرد میں برابری کا جو تصور مغرب میں پیش کیا جا رہا ہے اسلام اس کی تائید نہیں کرتا ۔مذکورہ کنونشن میں جنرل پرویز مشرف نے غیرت کے نام پر قتل کے لیے سزا ئے موت کا اعلان کیا ہے ۔یہ مطالبہ بھی این جی اوز کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔دنیا کے بیشترممالک میں فوری اشتعال کے نتیجے میں بالخصوص آبرو کے معاملے میں اشتعال میں آکر کئے جانے والے قتل کی وارداتوں کوقتل عمدہ نہیں سمجھا جاتا ۔یہ قتل خطا کے زمرے میں آتا ہے۔[3]اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اسلامی فقہ کے ماہرین کی آراء طلب کی جائیں مگر شروع ہی سے موجودہ فوجی حکومت نے علماء اور دینی طبقہ کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے خالص دینی معاملا ت میں بھی این جی اوز کے مفتی صاحبان کی آرا کو بنیاد بنا کر فیصلے کیے جا رہے ہیں جنرل پرویز مشرف نے خلع کے قوانین کو مزید آسان بنانے کا اعلان بھی کیا ہے ۔نہ جانے مزید آسان بنانے کی غرض وغایت کیا ہے؟حقیقت تو یہ ہے کہ شاید ہی کو ئی عورت ایسی ہوگی جو عدالت میں خلع کی دراخوست دے اور اسے خلع کا حق نہ ملا ہو۔خلع کو آسان بنانے کے نام پر
[1] محدث کے آئندہ شمار ے بابت ربیع الاول 1421ھ میں "اُم الحقوق " کے موضوع پر تفصیلی مقالہ ملاحظہ فرمائیں ۔
[2] مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں مقالہ "خواتین کی اسمبلیوں میں نمائندگی "(مطبوعہ محدث جنوری 1998)
[3] محدث جون 1999ء میں شائع شدہ تفصیلی مضمون "غیرت کے نام پر قتل قانونی و اسلامی نقطہ نظر "کا مطالعہ فرمائیں ۔