کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 49
مہاجرین کے بارے میں فرمایاہے۔
"جو لوگ کفار کی سختیوں سے تنگ آنے کے بعد اللہ کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ آئے پھر یا تو وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑتے ہوئے شہادت پاگئے یا طبعی موت مرگئے۔اللہ تعالیٰ انہیں بہت عمدہ رزق عطا فرمائےگا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر رزق دینے والاہے اور انہیں پرکشش جگہ میں داخل فرمائے گا بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا اور حوصلے والاہے"(سورۃ الحج :58۔59)
اس ذکر خیر کے بعد آیت نمبر 60میں اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرماتے ہیں ۔
"اگر کوئی شخص اپنے دشمن کو اتنا تنگ کرے جتنا وہ خود دشمن سے تنگ ہواتھا اور دشمن پھر اس پر زیادتی کرے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کی دادرسی فرمائےگا۔بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنیوالا اور بخشنے والاہے"
اسی طرح سورۃ مجادلہ کی ابتدائی آیات میں بیویوں کے متعلق ماں کے لفظ استعمال کرکے انہیں اپنے لیے حرام کر لینے والے شوہروں کی بات کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی ناپسند فرمایا اور ان کے اس عمل کو منکروزور(بےہودہ اور جھوٹ کا پلندہ ) قراردیا ہے لیکن انہیں اپنی رحمت سے مایوس نہیں فرمایا۔بلکہ اپنی صفات "عفو"اور "غفور"کا ذکر کرکے انہیں اصلاح کا موقع دیا ہے ۔۔۔اسی طرح سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہدایت اور کفار کے مسلسل انکار کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے(سورۃ الاعراف : 199،198)
"اگر آپ انہیں ہدایت کی طرف بلائیں تو وہ لوگ آپ کی بات نہیں سنتے اور آپ محسوس کرتے ہیں کہ وہ پھٹی ہوئی نظروں سے آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔حالانکہ ان میں دیکھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ اس لیے آپ ان سے در گزرفرمائیں ۔بھلائی کا کام جاری رکھیں اور جاہلوں کو منہ نہ لگائیں "
یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ دین کے سلسلے میں پیش آنے والے مصائب کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی تلقین فرماتا ہے۔ تکلیف دینے والوں کے ساتھ عفوودرگزر سے پیش آنے کی ہدایت فرماتا ہے اس کے باوجود اگر کو ئی الجھنا چاہے تو بھی جھگڑنے کی ضرورت نہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عفوو درگزر کے معاملے کو کمال تک پہنچایا اور بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے ایسی مثالیں چھوڑ گئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ طرح طرح کی اذیتیں دینے والے دشمنوں کو نہ صرف معاف فرمایا بلکہ ان کو گلے لگایا ان کے احترام میں کو ئی کمی نہ فرمائی۔
دشمنوں سے عفوودرگزر:
دشمن سے انتقام لینا اور خاص کر دشمن بھی ایسا جس نے بھر پور دشمنی کی ہو۔ لہوکا پیاسا ساری زندگی دکھ دینے والا ہر دم گھات میں رہنے والا اس کے لگائے ہوئے زخم مسلسل رس رہے ہوں ۔ساری زندگی چین سے نہ بیٹھنے دیا ہو۔ایسے آدمی سے انتقام لینا فطری تقاضا ہے۔ ایسے دشمن کو اس وقت معاف کرنا اور درگزر کرنا بدلہ نہ لینا جبکہ بدلہ لینے کی پوری طاقت بھی ہو اور حالات بھی مدد گار ہوں ۔ایسی صورت میں ایسے دشمن کو معاف کرنا کتنی بڑی عظمت کی بات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
(کتاب الادب :باب الخدرمن الغضب ص7/99)
لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرْعَةِ ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ "