کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 48
وَاللَّهِ لا يُؤْمِنُ ، وَاللَّهُ لا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ ، وَاللَّهِ لا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ ، وَلا يُؤْمِنُ " . قَیل من يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟قال : الذي لا يأمنُ جارُه بوائِقَه " "اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں اللہ قسم وہ مؤمن نہیں ۔دریافت کیا گیا کون اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟تو آپ نے فرمایا : وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں " اس حدیث میں اگر چہ بعض مخصوص حالات میں مؤمن نہ ہونے کی نشاندہی فرمائی گئی ہے لیکن مجموعی طور پر یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ دوسرے انسانوں کو تکلیف پہنچانا اسلام میں سخت ناپسندیدہ فعل ہے ایسا کرنے والا شخص اسلامی معاشرے میں اپنی قدرو قیمت اور احترام سے محروم ہو جاتا ہے ہر چھوٹے بڑے کی نظر وں میں حقارت کے سوااسے کچھ نہیں ملتا ۔صرف لوگ اس کی شرارتوں سے محفوظ رہنے کے لیے وقتی طور پر اسے قدرے عزت دیتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف فرما تھے اور کسی شخص نے اجازت طلب کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا :بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ قبیلے کا بد ترین انسان ہے جب وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا تو آپ نے نہایت نرمی سے بات کی۔ اس کے جانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"وہ شخص بہت براہے جس کے شرسے بچنے کے لیے اس کو چھوڑدیا جائے" (بخاری: کتاب الادب باب لم یکن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاحشا ص7/81) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات گوارا ہی نہیں کہ کسی مسلمان کو تکلیف دی جا ئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں یہاں تک فرمایا ہے: سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ(بخاری کتاب الادب باب مانہی عن السب ) "مسلمان کو گالی دینا فاسق بنا دیتا ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر کرنے کے مترادف ہے ‘‘ لیکن اگر کوئی شخص ایسے لوگوں میں نہیں ہے جو دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہیں اس سے نادانستہ طور پر کوئی ایسی غلطی ہو جا ئے جو دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث بن جائے تو ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرے نادم ہو۔ دوبارہ ایسا نہ کرنے کا عزم کرے ۔تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو معاف فرمادیتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے: إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللَّهُ، عَلَيْهِ "جس شخص نے غلطی کر کے اعتراف کر لیا اور توبہ کر لی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے" اگر ایسی غلطی سے کو ئی انسان یا معاشرہ متاثر ہوا ہے تو ان سے معذرت کی جائے گی اسلام بھی انہیں اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ عفوو درگزر سے کام لیں اور اس کی معذرت قبول فرمائیں اور اصلاح کا موقع دیں ۔اللہ رب العزت کا یہی قانون ہے کیونکہ اگر فوری طور پر سزادینے کا عمل اختیار کر لیاجائے تو زمین پر کوئی بھی زندہ نظر نہ آئے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔(النمل:61) ﴿ وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَٰكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ﴾ "اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے ظلم کی وجہ سے ان کا مؤاخذفرماتے تو زمین پر کوئی جانور بھی نہ چھوڑ تے۔ لیکن اللہ تعالیٰ انہیں ایک محدود مدت تک مہلت دیتا ہے اور پھر جب ان کا مقرر ہ وقت آجاتا ہے تو پھر لمحہ بھر کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی" اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت "عفو"کا ذکر قرآن پاک میں کئی مقامات پر فرمایا ہے سورۃ حج میں اللہ تعالیٰ نے