کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 47
ہاں چند مسائل ایسے ہیں جو اہل فکرکی توجہ چاہتے ہیں اور کسی حال میں بھی ان کا کرنا مناسب نہیں ۔جیسے کہ معاملے کی تہہ تک پہنچے بغیر اُلجھ پڑنا دوسروں کو تکلیف پہنچانا ذرا سی بات پر مرنے مارنے پر تل جانا ہر ناپسندیدبات پر آپے سے باہر ہو جانا دوسرے انسانوں کا احترام نہ کرنا تحمل و برداشت سے تہی دامن ہونا ۔ملکی قانون کو خاطر میں نہ لانا عفوردرگزر کی ضرورت اور اہمیت سے ناواقف ہونا۔ یہ سب امور ایسے ہیں جن سے غفلت انسانی بقا کے لیے بہت ہی خطر ناک ہے اور معاشرتی زندگی تہ و بالا ہوجاتی ہے۔ اس کا ندازہ آپ ایک ایسی خبر سے لگا سکتے ہیں ۔جو روزنامہ جنگ مؤرخہ 31/مارچ 1998ءکے صفحہ 16پر شائع ہوئی ہے ۔جس کی بعض سرخیاں درج ذیل ہیں ۔ "گدھا مسجد میں داخل ہونے پر افغان قبائل میں لڑائی ۔۔۔51ہلاک " "ایک شخص نے گدھے کو گولی مارڈھیر کر دیا ۔مالک نے مشتعل ہوکر 13/ نمازی ہلاک کر دئیے۔" "مقامی لوگوں نے گدھے کے مالک کے گاؤں پر حملہ کردیا۔ راکٹ لانچروں اور میزائلوں کا استعمال " مندرجہ بالا واقعہ کیا یہیں ختم ہو جا تا ہے یا یہ جنگ کتنی اور جانوں کو تلف کرے گی اور کتنا عرصہ خون کی ندیاں بہتی رہیں گی۔اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے۔ کیا اسلام اپنے ماننے والوں کی تربیت اسی انداز میں کرتا ہے۔ یہ کردار تو عرب کی جاہلیت میں ڈوبی ہوئی قوم کے کردار سے بھی بد تر ہے جن کے پاس نور اسلام کی کوئی کرن نہیں پہنچی تھی۔ان انسان نما حیوانوں ہی کے بارے میں مو لانا حالی نے فرمایا تھا۔ کہ چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ ہر اک لوٹ مار میں تھا یگانہ فسادوں میں کتنا تھا ان کا زمانہ نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے درندے ہوں جنگ میں بے باک جیسے دوسری جگہ عفوودرگز ر سے عاری اس قوم کا نقشہ کھینچتے ہیں جن کی باہمی جنگیں تقریباً آدھی صدی پر محیط تھیں اور نتیجتاً قبیلوں کے قبیلے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ (مسدس حالی ص14) کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا لب جو کبھی آنے جانے پہ جھگڑا کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا یونہی روزہوتی تھی تکرار ان میں یونہی چلتی رہتی تلوار ان میں اس لیے ضروری کہ ہم میں سے ہر شخص ایسی اخلاقی اقدار کا خوگر بن جائے ۔جو اسلام کا شعار ہیں اور جن کے بغیر اسلام کی تکمیل ناممکن ہو جاتی ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ. (بخاری کتاب الرقاق باب الانہتاء عن المعاصی ) "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں " اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کے زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ ہوں تو اس کے مسلمان ہونے کے بارے میں مشکوک و شبہات جنم لے سکتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :