کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 46
پار کر رہی ہے تو ٹریفک اتنا جلد باز ہوتا ہے کہ وہ بیچ میں ہی پھنس کر رہ جاتے ہیں ۔ ٹریفک سگنل اگر کسی چوک پر سرخ ہوجائے توروکنے والے کونہ صرف پیچھے سے ہارون سننا پڑتی ہے بلکہ قریب سے گزرتی ہوئی گاڑیوں سے آوازیں بھی سننی پڑتی ہیں ان چند مثالوں سے پاکستان کی سماجی زندگی میں قوت برداشت اور رواداری سکی کمی واضح دکھائی دیتی ہے۔زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کو رعایت دینے پر آمادہ ہیں ہی نہیں ۔عدم رواداری کا بنیادی سبب غالباً یہ ہوسکتا ہےکہ ہر آدمی روز مرہ کے بنیادی مسائل اور ان کے حل ہونے کی موہوم سی امیدبھی نہ ہونے کے سبب اس قدر چڑ چڑے پن کا شکار ہے کہ یہ چڑچڑا پن انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں دوسروں پر غصہ اور ان کی کھلے عام توہین کی صورت میں سامنے آتا ہے۔یہ رجحان انتہائی اعلیٰ سطح سے لے کر ادنیٰ سطح تک بڑی آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔فرقہ واریت اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور دیگر مسائل بیماریاں نہیں بیماری کی علامت ہیں اور بیماری ہے خود کو سو فیصد درست سمجھنا اور دوسرے کو برداشت نہ کرنا ۔۔۔اور جب عدم رواداری بڑھ جائے تو معاشرہ ایک بے ربط ہجوم میں بدل جاتا ہے اور معاملہ آنکھ کے بدلے آنکھ سے بڑھ کر آنکھ کے بدلے ناک تک پہنچ جاتا ہے۔ کیا پاکستانی معاشرہ اسی جانب جارہا ہے؟ اس سوال پر اہل پاکستان کو انتہائی ٹھنڈےدل اور روا داری سے سوچنے کی ضرورت ہے۔!! مذکورہ بالا رپورٹ میں جن باتوں کی نشاندہی کرنے کے بعد پاکستان کے اہل علم اور صاحب بصیرت لوگوں کو غور و فکرکرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ ان میں بعض کا تعلق ایسے مسائل سے ہے جن کے بارے میں ہم رپورٹ مرتب کرنے والے کی رائے سے متفق نہیں ہو سکتے ۔کیونکہ ان سے ایک طرف توبے راہروی معاشرتی فساد اور خود سری پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف خاندانی رابط و ضبط تباہی کاشکار ہو جاتا ہے۔ نیز یہ بات بھی یادرکھنی ضروری ہے کہ آزادی کے نام پر اسلامی اصولوں سے ایک یاچند نام نہاد مسلمانوں کے بغاوت کرنے سے کوئی نیا ضابطہ وجود کوئی غلط فیصلہ کردے تو حقیقت سے واقف کار لوگوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ ایسے فیصلہ پر عملدرآمد نہ ہونے دیں اور صحیح معاملے کی نشاندہی کریں ۔تاکہ حق و صداقت کو پہچانا جاسکے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ "میں ایک انسان ہوں اور بے شک تم جھگڑتے ہوئے میرے پاس آتے ہو ممکن ہے تو میں سے کوئی شخص اپنی دلیل کو مد مقابل کی نسبت زیادہ بہتر طریقے سے بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہواور میں اس سے سنی ہوئی بات کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کردوں تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کردوں تو وہ اس کے قریب بھی نہ پھٹکے کیونکہ میں نے اس طرح سے جہنم کا ایک ٹکڑا اس کے حوالے کردیا " (بخاری کتاب الاحکام باب موعظہ الامام للخصوم ص 8/112) اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قاضی کا ایسا فیصلہ جو کہ اس کے سامنے پیش ہونے والے دلائل کے لحاظ سے بالکل صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ حالانکہ درحقیقت وہ غلط ہے اور جس کے حق میں وہ فیصلہ ہوا ہے اسے بھی فیصلہ کے غلط ہونے کا علم ہے تو اسے قاضی کے فیصلہ کے مطابق عملدرآمد کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ حقیقت کا اظہار کر کے اپنی غلطی کا اعتراف کر لینا چاہیے ورنہ وہ جہنم کا حق دار بن جائے گا۔
[1] صدر شعبہ علوم اسلامیہ ، انجینئرنگ یونیورسٹی ، لاہور