کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 44
کو ضرور متعارف کرایا جائے تاکہ علماء اس موضوع پر بنیادی معلومات رکھتے ہوں ۔اسی طرح علماء میں تلاوت کی ادائیگی و تلفظ کی درستگی بھی ممکن ہو سکے گی۔اگر ممکن ہو تو مدارس دینیہ میں اس مستقل مضمون کے اضافے کے ساتھ درجہ تخصص میں علم تجوید و قراءات کا تخصص بھی متعارف کرایا جائے تاکہ قاری و عالم ہر دو طبقے میں ذہنی بعد کم ہوا اور دونوں مل کر زیادہ بہتر انداز میں دین پر اعتراضات کا جواب دے سکیں ۔ 2۔مدارس تجوید و قراءات میں الفاظ کے ساتھ ساتھ دیگر علوم قراءات کی طرف بھی توجہ دی جائےاور مختلف موضوعات پر علمی و تحقیقی مباحث کا اہتمام بھی کیا جائے۔ 3۔مجلس الدفاع عن القرآن والحدیث نامی ادارے کا قیام عمل میں لا یا جائے جو قراءات اور حدیث کے حوالے سے پیدا ہونے والے شبہات پر علمی بحث و مباحثہ اور مواد تحقیق فراہم کریں ۔ 4۔ایسے تعلیمی ادارے متعارف کرائے جائیں جن میں قراءات کے ساتھ مکمل دینی علوم کا بھی اہتمام موجود ہو تا کہ قاری غیر عالم کا تصور ختم ہو اور تجوید و قراءات کی علمی بنیادوں پر خدمت ممکن ہو سکے۔۔ ( یہ وہ چند نکات ہیں جو اس مختصر نشست میں ،میں آپ کے گوش گزار کر سکا ہوں ۔ان میں سے ہر ہر موضوع جس قدر تفصیل اور وقت نظر کا متقاضی ہے وہ آپ حضرات بخوبی جانتے ہیں ۔ بہر حال کچھ بھی پیش نہ کرنے کی بجائے کچھ نہ کچھ پیش کردینا مفید ہوتا ہے۔میں انتطامیہ اور ادارہ ہذا کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس سلسلہ میں مجھے نمائندگی کا موقع دیا ۔ ایک اور لحاظ سے بھی یہ امر خوش آئندہےکہ تعلیمی میدان میں مدارس حفظ و تجوید وقراءات کو نمائندگی کے قابل سمجھا گیا ۔ان کے طرز تعلیم اور کوتاہیوں سے آگاہ ہونے کی ضرورت محسوس کی گئی ۔یہ ایک عظیم اقدام ہے جس سےکافی خیر کی تو قع کی جاسکتی ہے۔ (اللہ تعالیٰ اپنے دین کو سمجھنے اور درست عمل کی توفیق بخشے ۔آمین۔ (قارئین کے لیے یہ امر مسرت کا باعث ہو گا کہ محترم مدیر اعلیٰ جامعہ لاہور الاسلامیہ مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی نے آج سے51/16برس قبل جب قاری ابراہیم میر محمدی مدینہ منورہ یونیورسٹی میں کلیہ القرآن کے مرحلہ پوسٹ گریجویشن زیر تعلیم تھے ۔سے مسلسل ملاقاتوں کے ذریعے اس نیک مشن کی انجام دہی کا منصوبہ بنایا جس کا خاکہ گذشتہ سطور میں حفظ تجوید اور علوم قراءات کے ضمن میں پیش کیا گیا ہے۔قاری صاحب اپنی اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہو کر جب وطن عزیز واپس ہوئے تو جامعہ لاہور الاسلامیہ میں ایک سال کلیۃ الشریعہ کی کلاسوں میں تجوید کا پیریڈمتعارف کرانے کے بعد 1990ءمیں ایک مستقل شعبہ بنام کلہ القرآن الکریم کا اجراء کیا گیا ۔نامور قرآء کرام کی سر پرستی حاصل کی گئی سالانہ محافل قراءات کا بڑی گرم جوشی سے انعقاد ہوتا تاکہ تدریجاً نئے طرز تعلیم کو متعارف کرایا جائے۔اب جب کہ اس کلبیہ کو جاری ہوئے 10برس کے الگ بھگ ہونے کو آئے ہیں ۔ الحمد اللہ قاری صاحب نے اپنی شبانہ روز محنت سے قاری علماء کی ایک جماعت تیار کر کے اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر فرمائی ہے۔ علوم تجوید و قراءات کی خدمت کا یہی وہ مشن بھی تھا جسے عرصہ سے مدیر اعلیٰ اپنے نہاں خانہ دل میں سماتے آرہے تھے اللہ کا بہت احسان ہے کہ آج برسوں پہلے سوچا جانے والا گلشن مہکتا اور خوشبو دیتا نظر آرہا ہے جس میں گواصلاح احوال کی کافی گنجائشیں موجود ہیں جن میں بعض پر قابو پانا ادارے کے محدود وسائل کی بنا پر مشکل بھی ہے لیکن الحمد اللہ طلبہ اور علماء میں اس کا شعور پیدا ہو رہا ہے اور ہرسال طلبہ کی ایک عظیم جمعیت اس کلیہ القرآن کی طرف دور دراز سے کھنچی چلی آتی ہے ۔اسی کلیہ سے معروف قرآء نے جہاں ملکی سطح پر اپنی حسن کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہاں اعلیٰ تعلیم کے لیے غیر ملکی اسلامی یونیورسٹیوں میں سکالرشپ بھی حاصل کئے الحمد اللہ قاری صاحب کے زیر سر پرستی ہی طلبہ کی ایک تنظیم تحریک تحفظ قراءات کے نام سے بھی قائم ہو چکی ہے۔کلیہ القرآن الکریم میں علوم سبعہ عشرہ قراءات کے ساتھ ساتھ مروجہ درس نظامی کی بھی مکمل تعلیم دی جا تی ہے اور غالباً قراءات کی۔ اس درجہ اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی موجود ہوں ۔سعودی زیڈیو پر کلیہ ہذاکے طلبہ کی ہفتہ وار ریکارڈنگ اس کے اعلیٰ معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس شعبہ میں صرف حافظ قرآن طلبہ کو داخلہ دیا جا تا ہے۔علاوہ ازیں قاری محمد ابرا ہیم میر محمدی صاحب کی ہی زیر نگرانی حفظ کا ایک وسیع سلسلہ قائم ہے۔جس میں 8کے لگ بھگ کلاسیں قائم ہیں آپ نے اپنی قابلیت اور ذوق و شوق سے اس شعبہ میں بھی نمایاں تبدیلیاں پیدا کی ہیں ۔محترم مدیر اعلیٰ بھی ان شعبہ جات کی اپنی علمی مشاورت سے خاص سر پرستی فرماتے ہیں اور قاری صاحب کو انھوں نے نے شب و روز اس مبارک مشن کے لیے یکسورکھ کر باقی علمی و مادی وسائل کی ذمہ داری کا بوجھ خود اٹھایا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ اس شعبہ کلیہ الشریعہ اور دیگر تمام نیک کاموں کی قبولیت سے سرفراز فرمائے۔ ذمہ داران ادارہ کو زیادہ خلوص عطا فرمائے اور ان تعلیمی تحقیقی اور رفاہی خدمات میں مصروف گلشنوں کو تادیر آباد رکھے ۔آمین! ( میں ایک مستقل شعبہ بنام کلہ القرآن الکریم کا اجراء کیا گیا ۔نامور قرآء کرام کی سر پرستی حاصل کی گئی سالانہ محافل قراءات کا بڑی گرم جوشی سے انعقاد ہوتا تاکہ تدریجاً نئے طرز تعلیم کو متعارف کرایا جائے۔اب جب کہ اس کلبیہ کو جاری ہوئے 10برس کے الگ بھگ ہونے کو آئے ہیں ۔ الحمد اللہ قاری صاحب نے اپنی شبانہ روز محنت سے قاری علماء کی ایک جماعت تیار کر کے اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر فرمائی ہے۔ علوم تجوید و قراءات کی خدمت کا یہی وہ مشن بھی تھا جسے عرصہ سے مدیر اعلیٰ اپنے نہاں خانہ دل میں سماتے آرہے تھے اللہ کا بہت احسان ہے کہ آج برسوں پہلے سوچا جانے والا گلشن مہکتا اور خوشبو دیتا نظر آرہا ہے جس میں گواصلاح احوال کی کافی گنجائشیں موجود ہیں جن میں بعض پر قابو پانا ادارے کے محدود وسائل کی بنا پر مشکل بھی ہے لیکن الحمد اللہ طلبہ اور علماء میں اس کا شعور پیدا ہو رہا ہے اور ہرسال طلبہ کی ایک عظیم جمعیت اس کلیہ القرآن کی طرف دور دراز سے کھنچی چلی آتی ہے ۔اسی کلیہ سے معروف قرآء نے جہاں ملکی سطح پر اپنی حسن کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہاں اعلیٰ تعلیم کے لیے غیر ملکی اسلامی یونیورسٹیوں میں سکالرشپ بھی حاصل کئے الحمد اللہ قاری صاحب کے زیر سر پرستی ہی طلبہ کی ایک تنظیم تحریک تحفظ قراءات کے نام سے بھی قائم ہو چکی ہے۔کلیہ القرآن الکریم میں علوم سبعہ عشرہ قراءات کے ساتھ ساتھ مروجہ درس نظامی کی بھی مکمل تعلیم دی جا تی ہے اور غالباً قراءات کی۔ اس درجہ اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی موجود ہوں ۔سعودی زیڈیو پر کلیہ ہذاکے طلبہ کی ہفتہ وار ریکارڈنگ اس کے اعلیٰ معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس شعبہ میں صرف حافظ قرآن طلبہ کو داخلہ دیا جا تا ہے۔علاوہ ازیں قاری محمد ابرا ہیم میر محمدی صاحب کی ہی زیر نگرانی حفظ کا ایک وسیع سلسلہ قائم ہے۔جس میں 8کے لگ بھگ کلاسیں قائم ہیں آپ نے اپنی قابلیت اور ذوق و شوق سے اس شعبہ میں بھی نمایاں تبدیلیاں پیدا کی ہیں ۔محترم مدیر اعلیٰ بھی ان شعبہ جات کی اپنی علمی مشاورت سے خاص سر پرستی فرماتے ہیں اور قاری صاحب کو انھوں نے نے شب و روز اس مبارک مشن کے لیے یکسورکھ کر باقی علمی و مادی وسائل کی ذمہ داری کا بوجھ خود اٹھایا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ اس شعبہ کلیہ الشریعہ اور دیگر تمام نیک کاموں کی قبولیت سے سرفراز فرمائے۔ ذمہ داران ادارہ کو زیادہ خلوص عطا فرمائے اور ان تعلیمی تحقیقی اور رفاہی خدمات میں مصروف گلشنوں کو تادیر آباد رکھے ۔آمین!
[1] [2] [3]