کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 43
تحفظ کے لیے ہی لازمی قراردی گئی ہیں مراکش بلکہ بلاد مغرب کا توعربی حروف تہجی لکھنے کا اسلوب ہی دنیا بھر سے نرالا ہے جو آج سے نہیں بلکہ دوسری صدی میں وہاں طلوع اسلام سے آج تک مروج چلا آرہا ہے چنانچہ قراءات کا انکار کرنے والوں کو اپنی نظر وسیع کرنے اور اپنی قوت مشاہدہ کام میں لا نے کی ضرورت ہے۔۔۔المختصر اگر قراءات کا انکار کر دیا جائے تو ہمارا موجودہ قرآن بھی باقی نہیں رہتا ہمارے اکثر انگریزی نظام تعلیم کے پروردہ مسلمان حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حفاظت قرآن کی کوششوں سے متوتر قراءات کے انکار کا مفروضہ بھی قائم کر لیتے ہیں جبکہ علمی طور پر یہ امر مسلمہ ہے۔کہ مسلمانوں کو دین کے کسی جز کے حذف کرنے کا اختیار نہیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر دین مکمل ہو چکا ۔آج کے اس گئےگزرے دور میں قرآن کی ایک حرکت کی تبدیلی کو مسلمان گوارانہیں کر سکتے تو یہ کیسے سمجھا جاسکتاکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کے چھ حروف (مروجہ قراتوں ) کو ختم کر دیا اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اس کو برداشت کر لیا۔خلفائے رشداین رضوان اللہ عنہم اجمعین کو بھی دین کا کوئی جز منسوخ کرنے کا اختیار نہیں کجایہ کہ وہ قرآن کے چھ حروف منسوخ کردیں ۔آپ کے تیار کردہ مصحف عثمانی سے ہی سب قراءاتوں اور روایتوں کا ثبوت ملتا ہے۔ مجھے اس مجلس میں قراءات کی حجیت پر گفتگو نہیں کرنا ہے ورنہ اس موضوع پر بہت کچھ پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان اعتراضات کے تناظر میں ضرورت اس امرکی ہے کہ طلبہ کو ان موضوعات پر علمی مواد بہم پہنچا یا جا ئے اور فکری غذا فراہم کی جاے۔ (3)علوم قراءات کو نظر انداز کیا جا رہاہے:۔ قراءات میں لفظی تغیر کی نوعیت صرف الفاظ تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس سے معافی وتفسیر قرآن میں بہت مدد میسر آتی ہے۔ قراءات میں الفاظ کے بدلنے سے معنی میں پیدا ہونے والے تغیر کی تعلیم ان درسگاہوں میں نہیں دی جارہی ۔معنی میں ہونے والے تغیرات کو اصلاح میں توجیہ القراءات کا نام دیا جا تا ہے۔ یہ قراءات کا ایک اہم علمی فائدہ ہے جس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں آیات کے شمار کا علم عینی علم الفواصل رسم قرآنی کے حوالے سے علم الرسم اور علم الضبط کی تعلیم کا اہتمام نہیں کیا جارہا۔جس کے بغیر قراءات کی تعلیم ادھوری ہے اور اس کا حقیقی فائدہ حاصل ہونا اور عملاً مفید ہو نا مشکل ہو جاتا ہے۔ میری رائے میں ان کو تاہیوں کے سدباب کے لیے درج ذیل تجاویز کو بروئے کا رلایا جا نا چاہیے۔ 1۔عام دینی مدارس میں جہاں علم تجوید و قراءات کی تعلیم نہیں دی جاتی ضروری ہے کہ ایک مضمون