کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 4
مبنی بر حقیقت نہیں ہے کہ قانون توہین رسالت کے تحت درج کیے جانے والے تمام مقدمات بے بنیاد ہیں ۔کوئی ایک آدھ واقعہ ایسا ہوبھی سکتا ہے مگر باقی واقعات بے بنیاد ذاتی دشمنی کے نتیجہ میں وقوع پذیر نہیں ہوئے۔ کوئی بھی سچا مسلمان اپنی ذاتی رنجش کے لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام گرامی کا غلط استعمال کرتے ہوئے کسی غیر مسلم کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کرائے گا ۔پاکستانی اقلیتوں کے بعض جنونی ارکان مسلمانوں کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں عیسائیوں میں صلیبی جنگوں کی کدورتیں اب بھی باقی ہیں ۔یہاں تفصیلات[1] کی گنجائش نہیں ہے تاریخ اس دعوی پرگواہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ صرف قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت قائم کردہ مقدمات میں ہی ڈپٹی کمشز کی پیشگی اجازت کو کیوں ضروری قراردیا جا ئے دیگر خطرناک جرائم میں اس اجازت کو آخر ضروری کیوں نہیں سمجھا گیا؟ ایسا اگر اقلیتوں کے خود ساختہ حقوق کے تحفظ کے پیش نظر کیا جا رہا ہے تو پھر اکثریت کے حقوق کو بھی نظر انداز نہ کیا جا ئے۔اگر کوئی اقلیتی رکن مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کا مقدمہ دائر کرنا چاہیے تو اسے بھی ڈپٹی کمشز سے پیشگی اجازت لینی چاہیے کیونکہ اقلیتیں بھی اکثریت کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرانے کے اتنے ہی امکانات رکھتی ہیں جتنا کہ اکثریت کے بارے میں خدشہ کیا جا سکتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف صاحب کے این جی اوز برانڈ مشیروں نے انہیں یقیناً حالات کی ایک رخی تصویر بھی دکھائی ہوگی ۔کسی بات کے بارے میں معروضی فیصلہ کرنے کے لیے دونوں اطراف کی تصاویر کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے ڈپٹی کمشز کی اس معاملے میں پیشگی اجازت کی شرط کا عملی نتیجہ یہ ہو گا کہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے واقعات کے بارے میں مقدمات محض اس بنا پر درج نہیں کیے جاسکیں گے۔کہ فوری طور پر ڈپٹی کمشز کی اجازت کا حصول ممکن ہی نہیں ہو گا۔ بالخصوص ایسے تمام واقعات جو ضلعی ہیڈ کوارٹر سے بہت دور وقوع پذیر ہوں گے۔ بعض ضلعوں کی جغرافیائی حدود اتنی وسیع ہیں کہ لوگوں کا ضلعی صدر مقام تک آنا ہی دشوار ہوتا ہے ۔
اگر تو جنرل پرویز مشرف چاہتے ہیں کہ تو ہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم قانون کے مطابق صحیح مقدمات کا اندراج بھی نہ ہو تو پھر وہ مذکورہ تبدیلی کو ضرور نافذکریں ۔لیکن اگر ان کے ذہن میں صرف اس قانون کے غلط کے استعمال کو روکنا ہے توپھر انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ڈپٹی کمشز کی اجازت کو شرط بنا کر اس قانون کے صحیح استعمال کرنے کے امکانات کوبھی عملاً ختم کردیا جائے گا ۔جیسا کہ گذشتہ چند برسوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔ جناب فاروق لغاری جب صدر تھے تو انہوں نے تمام ڈپٹی کمشزوں کو ہدایات ارسال کی تھیں کہ
[1] محدث میں اخباری جائزوں اور عالمی رپورٹوں پر مشتمل ایک حقیقی مضمون میں بڑی تفصیل سے قانون توہین رسالت میں حالیہ تبدیلی کے محرکات و مضمرات پر 1999ءمیں مقالہ شائع کیا گیا تھا 40سے زائد صفحات پر شائع ہونے والے اس مقالہ میں اس موضوع کے جملہ پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔