کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 39
مسجد بنتے ہیں ۔لیکن افسوس کہ ان آئمہ کی علمی حالت کافی مخدوش ہوتی ہے۔ یہ آئمہ بعض موٹے مسائل کے علاوہ علم تجوید سے تو آشنا ہوتے ہیں لیکن قرآن کا بعض اوقات درست ترجمہ بھی نہیں کرسکتے بے شمار مسائل کا ان کو خیال بھی نہیں گزرا ہوتا ۔چنانچہ امام مسجد سے عوام کی توقعات اور تقاضے پورے نہیں ہوتے جو بعد ازاں اس عظیم منصب کے استخفاف کی صورت ظاہر ہوتے ہیں ۔
علم تجویدکے ان فاضل حضرات کو عموماًتحفیظ قرآن کی ذمہ داری سوپنی جاتی ہے ۔یہاں بھی بچوں کے اولین مربی ہونے کے ناطے وہ اس عظیم ذمہ داری کو کماحقہ نباہنے کی اہلیت سے عاری ہوتے ہیں ۔ چنانچہ طلبہ اور اساتذہ ہردو میں کم علمی اور بدعملی پائی جاتی ہے۔
(2)دینی تربیت کا فقدان :۔
مدارس تجوید میں تجوید کے علوم پر تو زور دیا جاتا ہے ۔لیکن قرآن کے اصل علوم پس منظر میں ہوتے ہیں دین صرف احکام و مسائل کو یاد کر لینے کا نا م نہیں بلکہ جب تک ان پر عمل نہ کیا جا ئے دین کے تقاضے پورے نہیں ہو تے ۔عمل کے لیے تربیت کی اشد ضرورت ہے ۔عموماً ان مدارس میں جن عظیم علوم اور جس مقدس کتاب سے طلبہ کو مزین کیا جا تا ہے اس کے تقاضوں کے متعلق آگاہی بہم نہیں پہنچائی جاتی۔ یہ تعلیم جس اعلیٰ اخلاق اور مثبت رویوں کی متقاضی ہے وہ صرف معمولی تربیت سے حاصل نہیں ہوسکتے بلکہ اس کے لیے تربیت کا بڑا ٹھوس اور واضح اسلوب اپنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن افسوس کہ ان مدارس میں اس اس تربیت پر کم زور دیا جا تا ہے۔ جس کے نتیجے میں ان مدارس کے فاضل بعض اوقات ایسا اخلاقی نمونہ پیش کرتا ہے جو علم قرآن سے مالامال فضلاء کے قطعاً شایان شان نہیں ۔
(3)علوم قرآن اور قرآن کے بارے میں عوامی تاثر خراب ہوتا ہے!:۔
علم الاداء پر خصوصی توجہ کے ماسوادینی تعلیم و تربیت سے عاری ہونے کی بنا پر علمی و عوامی حلقوں میں قاری کا تصور غیر عالم کا پایا جاتا ہے ۔ابتداء میں میں ذکرکر چکاہوں کہ دور نبوی میں حاملین قرآن حفظ واداء کے ساتھ علوم ومعانی قرآن کے ماہر اور علم دفن کے بھی شاہسوار ہوتے تھے دور نبوی میں قاری سے مراد عالم قرآن اور قاری قرآن دونوں ہوتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ علم و تربیت کا اہتمام نہ کرنے کی بدولت معاشرے میں قاری کامقام و مرتبہ کافی کم ہوکر رہ گیا ہے قاریوں کی بابت یہ تاثر اس کثرت سے موجود ہے کہ عوام الناس کے ذہن علوم قرآن کے بارے میں بھی واضح نہیں ۔چنانچہ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کے علوم اسی حد تک منحصر ہیں جو ان قراء قرآن کو پڑھا دئیے جاتے ہیں جبکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے غرض قراء کی اس کم عملی کی بنا پر قرآن کی بابت عوامی تاثر