کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 37
مخصوص فارم مہیا کرنے چاہئیں ۔ادارہ کے وسائل کے پیش نظرماہ بہ ماہ یہ رپورٹیں والدین کو ارسال کی جائیں ۔کسی طالب علم کی کارکردگی ناقص ہونے کی صورت میں والدین کو بلا یاجائے اور صوتحال سے آگاہ کر کے بچے کی تعلیم میں ان کی توجہ کو بھی حاصل کیا جا ئے ۔۔۔اگر اس کارکردگی کو والدین تک پہنچایا نہ جائے تو سال بھر کے بعد کارکردگی کی ساری ذمہ داری ادارہ حفظ پر آپڑتی ہےاوروالدین اپنی کوتاہیاں نظر انداز کر جاتے ہیں ۔ 3۔قرآن کریم کو فرمان نبوی کے مطابق عربی لہجے میں پڑھنے کی کو شش کرنی چاہیے اس حوالےسے جہاں اساتذہ طلبہ کے تلفظ واداکی طرف دوران حفظ توجہ رکھیں وہاں جدید وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اجتماعی طور پر نامور قراء کی تلاوت کے کیسٹ طلبہ کو سنائے جائیں نامور قرآء کی تعریف اور ان جیسا قرآن پڑھنے کاذوق پیدا کیا جائے ۔طلبہ میں اس ذوق و شوق کا اہتمام کرنے پر حوصلہ افزائی کی جائے۔بعض مدارس حفظ نے اس کا اہتمام کرتے ہوئے طلبہ کے تلفظ و لہجہ میں بڑی نمایاں تبدیلی اور بہتری محسوس کی ہے۔ 4۔بعض مدارس حفظ میں بے شمار طلبہ کی تعلیم کے لیے صرف ایک استاد ہوتا ہے یہ امر واضح ہے کہ حفظ قرآن کا عمل خصوصی توجہ اور محنت ومشقت کا متقاضی ہے۔طلبہ کی تعداد کا انحصار تو بہر حال استاذ کی صلاحیت پر منحصر ہے لیکن اس پر انتظامیہ کو بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں تمام مدارس حفظ و ناظرہ کے طلبہ کو یکجا تعلیم دینے کی بجائے اگر ان کو ان کے مراحل کےاعتبارسے قدرے جدا کردیا جائے تو اس سے بھی بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔ قرآن کریم کا صحیح تلفظ : قرائین کرام!حفظ قرآن کے بارے میں اس مختصر جائزے اور بعض سفارشات کے بعد ہم جائزہ لیتے ہیں آیت قرآنی:﴿ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴾ کے دوسرے جزقرآنہ کا ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے درست لفظ دادائیگی کی ذمہ داری بھی اپنے سرلی ہے ۔قرآن کریم کی درست تلاوت کے لیے علمائے امت نے بڑی کاوشیں کی ہیں اور ایک مستقل فن ترتیب دیا ہے جس کا مقصد وحید قرآن کی درست تلاوت ہے۔ اس فن کو علم تجوید کانام دیا جاتا ہے ۔علماء نے فن کااہتمام ضروری قراردیا اور اس موضع پر بے شمار تصانیف و تحقیقات منظر عام پر آئیں جن کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے، امام فن علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ کا اس کے بارے میں یہ معروف شعر پیش کیا جا تا ہے۔ والأَخْذُ بِالتَّجْوِيدِ حَتْمٌ لازِم مَنْ لَم يجود الْقُرَآنَ آثِمُ.