کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 35
اس کا حل یہ ہے کہ ناظرہ قرآن کی تعلیم کے وقت طلبہ کو کبھی کبھی بچوں کی دینی کتب اور اسلامی قصے بھی پڑھنے کو دئیے جائیں ہفتہ بھر میں کوئی کلاس لکھنے پڑھنے کے لیے بھی مخصوص کردی جائے۔ جس طرح اس سے قبل حفظ قرآن کے ساتھ دعاؤں کو بھی کبھی کبھی حفظ کرایا جاتا ہے اس طرح حفظ کے دوران لکھنے پڑھنے کی بھی مشق جاری رکھی جائے۔طلبہ میں قرآن کو پڑھنے اور حروف کی پہچان کے باعث لکھنے پڑھنے کی استعداد موجود ہوتی ہے ضرورت صرف اس کو نکھار نے کی ہےاس طرح ابتدائی حساب و کتاب بھی دلچسپی کے طور سکھایا جاسکتا ہے۔یاحفظ کی تکمیل کے بعد حفاظ کے لیے کوئی مختصر کورس متعارف کروایا جائے۔
(4)ٹیوشن کی صورت تعلیم قرآن :
ہمارے مخصوص ماحول میں قرآنی تعلیم ہر شخص لازمی خیال کرتا ہے اور ادب تو حفظ قرآن کا ذوق ورواج بھی کافی بڑھ چکاہے ۔آسائش و آرائش سے بہرہ ور مالدار والدین اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم تو دینا چاہتے ہیں لیکن مدارس حفظ کے کم تروسائل کی بنا پر اور بعض کوتاہیوں کی بنا پر واقع ہونے والے نقائص کی بدولت وہ پسند کرتے ہیں کہ اپنے گھر میں ہی انہیں قرآن کی تعلیم کا موقع مل جائے جس کے لیے قاری حضرات کی تلاش کی جاتی ہے اور انہیں ٹیوشن کی صورت مختصر مالی خدمت کے عوض گھر میں تعلیم قرآن کے لیے بلایا جاتا ہے ۔ٹیوشن کی صورت میں قرآن تعلیم سے ایسے والدین اپنے بچوں کے لیے معیار زندگی اور اخلاق وصفائی کا اہتمام تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن دوسری طرف ایسے بے شمار مسائل میں گھر جاتے ہیں جن کا کو ئی حل نہیں جن میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹیوشن کی صورت میں بچہ بہت کم ہی اپنے مقصد تعلیم کو پورا کرسکتا ہے اور ایسے بچے عموماًاس میدان میں کورےرہ جاتے ہیں ٹیوشن کی صورت میں یہ مسائل بھی جنم لیتے ہیں ۔
1۔قاری حضرات جب گھروں میں پھر کر بچوں کو تعلیم دیتے ہیں تو اس سے تعلیم قرآن کی عظمت اور قرآن کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ اپنے ماحول میں استاذ کی آمد سے طالب علم بھی استاد اور اس علم کو مطلوبہ اہمیت نہیں دیتا والدین کاطرز عمل بھی بعض اوقات ایسا ہی ہو تا ہے ۔چنانچہ تعلیم قرآن کی روایت تو رہ جاتی ہیں عملاً کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
2۔طالب علم صرف استاد سے سب کچھ حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنے رفیقان مکتب سے بھی بہت کچھ سیکھتا ہے دیگر طلبہ سے مقابلہ اسے بہت چیزوں میں محنت پر مجبور کرتا ہے ٹیوشن کی صورت میں اس مسئلہ کا کو ئی حل موجود نہیں ۔
3۔اساتذہ کاعلمی معیار اور ان کی قابلیت جانچنے کے لیے کسی وسیلہ کے نہ ہونے کی بنا پر استاذ کی اہلیت بھی مشکوک رہتی ہے۔ تعلیم قرآن کو پیشہ بنا لینے والے بعض اساتذہ کے پیش نظرصرف اپنی