کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 34
تھا ہمارے ہاں چونکہ الفاظ کے معانی و مفاہیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی چنانچہ طلبہ میں بدعملی پائی جاتی ہے عوام الناس قرآن کے طلب علم سے جس اعلیٰ عمل و اخلاق کی توقع کرتے ہیں طلبہ اس پر عموماًپورے نہیں اترتے ۔۔۔اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حفظ قرآن کے اساتذہ جو دراصل مدارس تجوید کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ۔اس بارے میں خود بھی کوئی اہتمام نہیں رکھتے ان کو بھی معانی قرآن اور ان پر عمل کی تربیت نہیں دی جاتی اور نہ ہی قرآن کے احترام و تقدس کو ان کے ذہنوں میں اُجاگر کیا جا تا ہے چنانچہ وہ اپنے طلبہ میں عملی ذوق پیدا کرنے میں پیدا کرنے میں نا کا م رہتے ہیں ۔۔۔ میری رائے میں اس کو تا ہی کا سد باب یوں کیا جا سکتا ہے کہ اول تو اساتذہ حفظ کو خصوصی ٹریننگ کورس کرائے جائیں ۔انہیں چونکہ نو خیز بچوں کا مربی بننا ہوتا ہے اس لیے اس کو کافی باصلاحیت اور باوقارہونا چاہیے ۔اسی طرح معاشرہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان اساتذہ کو مالی اخلاقی طور پر عزت دے ۔کیونکہ داناؤں کا کہنا ہے:
"إِنَّ الْمُعَلِّمَ وَالطَّبِيْبَ كِلاَهُمَا لايَنْصَحَانِ إِذَاهُمَا لَمْ يُكْرَمَا"
"طبیب اور معلم دونوں تب تک کچھ نہیں دیتے جب تک انہیں عزت نہ دی جائے"
عموماًیہی استاد مسجد کے امام بھی ہوتے ہیں ۔ جس سے ان کی تربیت کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے اساتذہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ طلبہ کو کبھی کبھار اخلاق و عمل پر مبنی حکایتیں اور درس سنائے جاتے رہیں قرآن کی اہمیت پر مبنی واقعات اور آسان کتب تیار کراکے بچوں میں متعارف کرائی جائیں تو ان مسائل پر کسی نہ کسی درجے میں قابو پایا جا سکتا ہے۔
(3)پڑھنے لکھنے اور دیگر بنیادی علوم کی تعلیم کا اہتمام نہ کرنا :
حفظ کے دورانئےکو عموماً طلبہ پر خصوصی بوجھ کا وقت سمجھا جاتا ہے ۔چنانچہ دوران حفظ طلبہ کو حفظ و ناظرہ کے علاوہ کسی اور وسیلہ علم سکھانے کی اہمیت محسوس نہیں کی جاتی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حفظ قرآن کا عظیم مقصد حاصل کرنے کے بعد طالب علم جب مروجہ تعلیم کے مرحلے پر آتا ہے تو دیگر علوم کی بابت اس کی قابلیت بالکل ابتدائی ہوتی ہے۔مزید تعلیم کے لیے بعض صاحب وسیلہ والدین تو بچے کے لیے حفظ کے بعد کم و بیش ایک سالہ تعلیم کا خصوصی اہتمام کرواتے ہیں جو ٹیوشن کی صورت میں ہو تا ہے ۔جبکہ باقی حافظ طلبہ اپنے لکھنے پڑھنے کی کم استعداد کی وجہ سے سکول میں بالکل ابتدائی کلاسوں میں بیٹھنے کی اجازت پاتے ہیں ۔۔۔جبکہ یہ ان کے مناسب حال نہیں کیونکہ یہ طلبہ اپنے علمی و ذہنی معیار کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے کی بھی دوسرے عام طلبہ سے زیادہ استعداد رکھتے ہیں ۔کمی صرف یہ ہوتی ہے کہ اس استعدادکو حاصل کرنے کی معمولی مشق نہیں کروائی جاتی۔ چنانچہ مختصر عرصہ میں جیسے ہی انہیں یہ بنیادی استعداد میسر ہو جا تی ہے وہ اپنے دیگر ہم کلاس طلبہ سے ممتاز ہو جا تے ہیں ۔