کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 33
حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال کرے گذشتہ چند سالوں میں تو یہ شوق و ذوق کافی پروان چڑھا ہے جس کے لیے ہر جگہ مختلف خصوصیات کے ادارہ ہائے تحفیظ القرآن عالم وجود میں آئے ہیں حفظ کے لیے مختلف تدابیر اور تحقیقات کو کام میں لا یا جارہا ہے۔۔۔عمومی طور پر مدارس حفظ کی دو صورتیں ہیں حفظ کے اکثر مدارس تو ان علاقائی مساجد میں مو جود ہیں جہاں محلے کے لوگ نماز پڑھتے اور جمعہ اداکرتے ہیں دیگر ممالک کے برعکس پاکستان میں عرصہ دراز سے یہ اہتمام پایا جا تا ہے کہ یہاں مساجد کے ساتھ کسی نہ کسی نوعیت کے مدرسہ کو اور کم از کم حفظ و ناظرہ قرآن کی کلاسوں کو شروع کیا جا تا ہے ان مدارس کا جال پورے ملک میں پھیلاہوا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اوسطاً 75فیصد مساجد میں حفظ و ناظرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ ملک میں قرآن کی تعلیم کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔ اس کے بعد ایسے رہائشی مدارس کی باری آتی ہے جہاں چند اہل خیر مل کر کوئی مستقل تعلیمی ادارہ قائم کرتے ہیں طلبہ کو رہائش بھی مہیا کرتے ہیں تاکہ جن علاقوں میں مناسب تعلیم کی سہولت میسر نہیں وہاں کے طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا ئے ۔ایسے طلبہ عموماً مکمل دن تعلیمی ادارہ میں قیام کرتے ہیں اور ہفتہ عشرہ میں گھر کے قریب و بعد کی نسبت سے ایک دوروز ملا قات کے لیے گھر جاتے ہیں ۔۔۔حفظ کے مخصوص تناظرمیں اہل نظر عموماً درج ذیل کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ (1)قرآن کریم کے تقدس واحترام کی کمی : حفظ کے لیے ابتدائی عمر کو مناسب وقت تصور کی جاتی ہے جبکہ بچہ کسی دوسری تعلیم سے قبل تعلیم قرآن سے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز کرے ۔عموماً ان بچوں کی عمریں 10سال سے کم یا اس کے قریب ہوتی ہیں بچوں کو اس صغرسنی میں یہ احساس خود ہوتا ہے نہ ہی دیا جاتا ہے۔کہ کس اعلیٰ نعمت کے حصول کے لیے کتنی عظیم کتاب کو وہ حفظ کر رہے ہیں قرآن کریم کے بارے میں ایسا عظیم و مقدس تصور اس چھوٹی عمر میں ان کے ذہنوں میں راسخ نہیں ہوتا کہ وہ اس کا احترام و تقدس ملحوظ رکھیں ۔کھلنڈری عمر ہو نے کی وجہ سے بھی طلبہ اس پر توجہ نہیں دیتے اور عموماً اس حوالے سے بعض کوتاہیاں دیکھنے میں آتی ہیں ۔۔۔اس سلسلے میں کچھ باتیں تو طلبہ کی چھوٹی عمر کے ناطے مجبوری کی قبیل سے ہیں کیونکہ حفظ قرآن کا مناسب وقت یہی ہے جبکہ حفظ کیا ہواقرآن زیادہ پختہ رہتا ہے اور بچہ ابھی دوسری مصروفیات میں مشغول نہیں ہو تا ۔بڑی عمر میں بچے عموماًاس محنت کے لیے تیار بھی نہیں ہوتے اور دیگر ہم عمر بچوں کی دیکھا دیکھی اس محنت سے جی چراتے ہیں ۔ لیکن اس کا حل اساتذہ کی توجہ دلانے اور طلبہ میں اس پر عمل کروانے سے ہو سکتا ہے۔ (2)بد عملی اور اخلاقی کوتاہیاں : دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تعلیم قرآن کے ساتھ مفہوم و علوم قرآنی بھی سکھائے جاتے تھےاس لیے متعلمین میں آیات قرآنی پر عمل کرنے کا جذبہ قابل رشک حد تک موجود