کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 32
بخوبی پتہ چلتا ہے لیکن یہاں یہ اشاد بھی ملتا ہے کہ اہل قرآن کی ذمہ داری فقط حفظ و قراءات تک محدود نہیں بلکہ انہیں قرآن کریم کے معانی اور مراد کا علم بھی ہو نا چاہیے جس پر عمل کر کے اس طرح بھی قرآن کو محفوظ کرایا جائے جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا معمول تھا۔ ایسے لوگوں کا مقام و مرتبہ جہاں بہت عظیم ہے وہاں ان کی ذمہ داری بھی بڑی ہے امانت کے جس باراٹھانے کی انہیں توفیق میسر آئی ہے اس کے تقاضے بھی بڑے ہیں ۔ان کی عظمت اور اہم ذمہ داری کے پیش نظر ان پر شیطان کے خصوصی حملے جاری رہتے ہیں تاکہ ان کو اس راہ سے ہٹا دیا جائے یا ایسی صورت پیدا کر دی جائے جس سے یہ لوگ اس ذمہ داری میں کو تاہی کے مرتکب ہو جا ئیں ان میں ایسے انسانی عوارض کو اجاگر کر دیا جا ئے جس سے اس مبارک مشن میں خلل واقع ہو جا ئے اور انجام کار کے طور پر یہ لو گ اپنے مشن کے تقاضے اور اُمت کو مطلوبہ رہنمائی میسر نہ کرسکیں اور اُمت اپنے ان محسنوں سے محبت کی بجائے ان سے نفرت کرنا شروع کردے۔۔۔شیطانی عزائم اور اس کے منصوبے اپنے جگہ ہیں اور حضرت انسان اپنی کوتاہیوں اور نفسیاتی عوارض کے باوجود جیسے تیسے صدیوں سے اس ذمہ داری کو انجام دیتا آرہا ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ اس مبارک تعلیم میں بہت سے نقائص پیدا ہو گئے ہیں جس کے لیے اصلاحی تدابیر عمل میں لا ئی جاسکتی ہیں لیکن یہ امر بہر طور واضح ہے کہ شیطان اور اس کے حواری امت کو اس عظیم کام سے ہتانے میں بالکل ناکام واقع ہوئے ہیں ان کی تدبیر یں بڑے مختصر دائرہ کار میں اثر پذیر ہوئی ہیں اگر نبی آخر الزماں کے امتی اور اسلام کے والہ وشیدامسلمان ان کی رشیہ دوانیوں کی طرف توجہ کریں تو شیطان کی کوششوں سے درآنے والے یہ نقائص قلیل مدت میں ختم ہو جا ئیں گے۔اللہ عزوجل کی ذمہ داری کی تکمیل کا وسیلہ ہونے کو اپنے لیے افتخار جان کر اپنے میں وہ اعتماد اور حوصلہ پیدا کر نے کی ضرورت ہے جس سے مسلح ہوکر مسلمان اس نیک کام کو دشمنوں کے شر سے محفوظ کرے اللہ کا فضل اور توفیق ان شاء اللہ خلوص سے محنت کرنے والوں کے ہمراہ ہی ہوگی ۔۔۔اب ہم پہلے مدارس حفظ کے بارے میں روشنی ڈالتے ہیں کہ کون سی وہ کوتاہیاں ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ حفظ قرآن کے بارے میں پائی جانے والی کوتاہیاں :۔ ہمارے مخصوص ماحول میں اللہ کا یہ خصوصی فضل ہے کہ حفظ قرآن کا شوق ہر مسلمان میں پا یا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر یہ انعام ہے کہ اس کے کلام کی محبت اس کے بندوں کے دلوں میں جاگزیں ہے اور چند نادر مثالوں کو چھوڑ کر ہر مسلمان کی یہ خواہش اور کوشش ہے کہ وہ خود یا اپنی اولاد کو