کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 3
بھٹو کی حکومت نے اس قانون کو تبدیل کرنے کے لیے مسودہ تیار کر لیا تھا جسے حزب اختلاف اور عوامی احتجاج کے پیش نظر اسمبلی میں پیش نہ کیا گیا 1999ءمیں نوازشریف کی حکومت نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے مگر وہ بھی اپنے مذموم مقاصد کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچاسکے تھے ۔کیونکہ عوام نے ایک دفعہ پھرنا موس رسول کے تحفظ کے لیے تحریک برپا کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کی تھیں ۔ اب جبکہ قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ٹھنڈا پڑچکا ہے۔ اقلیتوں کی طرف سے بھی اس کے خاتمہ کا پرزورمطالبہ نہیں کیا جارہا تھاحکومت نے اس قانون کے نفاذ کے طریقہ کار میں تبدیلی کا اعلان کر کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے کروڑوں مسلمان پاکستانیوں کے جذبات کو شدید مجروح کیا ہے۔ایک فوجی حکومت جس نے ہنگامی حالات کے تحت ملک کا کنٹرول سنبھالا ہے اور جس کا بنیادی ایجنڈا ہی ملک کی معاشی حالت کو بہتر بناناہے کویہ حق ہر گز نہیں پہنچتا کہ وہ ملک و قوم کے حساس معاملات پر عوام الناس کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس طرح کے فیصلے تھوپنے کی کو شش کرے جنرل پرویز مشرف اصلاحات کے جنوں میں بعض بنیادی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔تحفظ ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وہ شاید جنرل سیلز ٹیکس یا بلدیاتی نظام کے نظام کے نفاذ جیسا معاملہ سمجھتے ہیں کہ جسے حکومت کی طاقت کے بل بوتے پر عوام کی گردنوں پر مسلط کردیا جائے گا ۔یہ ایک بے حد حساس معاملہ ہے حکومت کی طرف سے اس معاملے میں کسی نااندیشی ایک نئے قومی انتشار اور فساد کا باعث بن سکتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب اگر سیکولر سوچ رکھتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے لیکن انہیں یہ ضرورعلم ہونا چاہیے کہ مذہبی معاملات میں ذاتی خیالات زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔پاکستانی فوج ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے۔ جنرل پرویز مشرف پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے معاملے میں تو قوم کے جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں مگر جہاں تک پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا معاملہ ہے وہ مغرب کی تنخواہ ادارہ این جی اوز کے خیالات کوآنکھیں بند کر کے قبول کئے جارہے ہیں افواج پاکستان کے سربراہ اور این جی اوز کی سوچ میں یکسانیت کا پا یا جانا حیران کن بھی ہے اور تکلیف دہ بھی۔کار گل کے ہیروکا این جی اوز کی ہاں میں ہاں ملا نا ایک بےحد مایوس کن امر ہے!! جنرل پرویز مشرف کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ 1924ء کے ترکی اور 2000ء کے پاکستان کے حالات میں فرق ہے۔ اگر اس وقت ترک قوم نے اتاترک کی مزاحمت نہ کی تھی تو اس کی بنیادی وجہ ان کا جنگ عظیم میں شکست سے دوچار ہونا اور یورپی اقوام کے ہاتھوں ذلیل ہوناتھا ۔پاکستان میں ایسے حالات نہیں ہیں اور نہ ہی پاکستانی قوم اپنے مزاج کے اعتبار سے کسی اتاترک کو قبول کرے گی۔ یہ استدلال سرے سے درست ہی نہیں ہے کہ چونکہ 295سی کا بعض لوگ غلط استعمال کرتے ہیں لہٰذا اس کے طریقہ کار میں تبدیلی لائی جائے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اقلیتوں اور این جی اوز کا یہ دعویٰ