کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 28
بھلا کسی پیغمبر نے سوائے اسماء الٰہی اور اعمال صالح یا زندہ آدمی سے دعا کرانے کے کوئی وسیلہ پکڑا ہے؟ وسیلہ کے متعلق امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورحنفی بزرگان دین کا موقف: وسیلہ بالذات کے متعلق حضرت امام ابوحنیفہ اور حنفی بزرگان دین کا موقف بڑی دور اندیشی اور حکمت پر مبنی ہے۔گردوپیش میں روز افزوں آستانوں کی کثرت اور وہاں ہونے والے شرک اکبر کی ابتداء غالباً اسی چھوٹے سے شگاف سے ہوئی۔امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ تبعید الشیطان میں فرماتے ہیں کہ: "عام آدمی پہلے تو بزرگان دین کے وسیلے سے اللہ سے فریاد کرتا ہے۔پھر اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان سے فریاد کرتا ہے کہ میرے لئے اللہ سے دعا کرو۔پھر اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ سمجھ کر کہ اللہ نے خزانے اس کے سپرد کررکھے ہیں ،وہ ان سے فریادیں کرکے ان کے نام نذرانے دےکر اسی شرک میں مبتلا ہوجاتاہے جس میں ابو جہل اور دیگر مشرکین مکہ گرفتار تھے" 1۔حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ ،اور امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ شیبانی فرماتے ہیں : ’’یکرہ أن یقول الرجل أسألک بحق فلان أو بحق أنبیائک ورُسُلک وبحقّ بیت الحرام والمشعر الحرام إذ لیس لأحد علی اللہ حق‘‘ (شرح فقہ اکبر:ص61) "کسی آدمی کا اس طرح مانگنا مکروہ ہے کہ اے اللہ! میں تجھ سے فلاں کے وسیلے یا نبیوں اور ر سولوں کے وسیلے سے اور بیت اللہ یا مشعر الحرام کے وسیلے سے د عا کرتا ہوں کیونکہ مخلوق کا خالق پر کوئی حق ہیں "(حق کی تشریح آگے آرہی ہے) 2۔فقہ حنفی کی اہم ترین کتاب الھدایہ ہے اور حنفی علماء کرام نے اس کتاب کے متعلق کہاہے:"الھدایۃ کالقرآن"کہ ہدایہ قرآن کی طرح ہے یعنی جس طرح قرآن نے پہلی آسمانی کتابیں منسوخ کردیں ،اسی طرح ہدایہ نے فقہ کی پہلی کتابیں منسوخ کردیں ۔صاحب ہدایہ فرماتے ہیں : ’’ویکرہ أن یقول فی دعاء بحق فلان وبحق أنبیائک ورسلک إذ لا حقَّ للمخلوق علی الخالق‘‘ (ہدایه اخیرین:473) "اورکسی آدمی کا اپنی دعا میں یہ کہنا مکروہ ہے کہ فلاں کے وسیلے سے یا نبیوں اور رسولوں کے وسیلے سے یہ سوال کرتا ہوں کیونکہ مخلوق کا خالق پر کوئی حق نہیں " 3۔فقہ حنفی کی مبسوط کتاب"البحر الرائق شرح کنز الدقائق" میں امام ابن نجیم حنفی فرماتے ہیں : ’’لا یجوز أن یقول بحقِّ فلان وکذا بحق أنبیائک وأولیائک ورسلک والبیت الحرام والمشعر الحرام لأنہ لا حقَّ للمخلوق علی الخالق و إنما یخص برحمتہ من یشاء من غیر وجوب علیہ‘‘ (البحرالرائق ،جلد8،ص20)