کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 27
قحط آتا(ہوتا) تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دعا کراتے۔چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان الفاظ میں دعا کرتے:
"اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَمْ يَنْزِلْ بَلَاءٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَّا بِذَنْبٍ ، وَلَا يُكْشَفُ إِلَّا بِتَوْبَةٍ ، وَقَدْ تَوَجَّهَ بِي الْقَوْمُ إِلَيْكَ لِمَكَانِي مِنْ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَهَذِهِ أَيْدِينَا بِالذُّنُوبِ وَنَوَاصِينَا بِالتَّوْبَةِ ، فاسقنا الغيث"
"اے اللہ! کوئی آفت نازل نہیں ہوتی مگر گناہوں کی وجہ سے اور نہیں دور ہوتی مگر توبہ کے ساتھ۔یہ لوگ مجھے تیرے سامنے(توبہ واستغفار کےلیے) لائے ہیں ۔کیونکہ میں تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرابت دار ہوں ۔یہ ہمارے گناہگار ہاتھ تیرے طرف بلند ہیں اور ہماری پیشانیاں تیری طرف اٹھی ہوئی ہیں ۔اے اللہ!ہمیں بارش عطا فرما"۔۔۔چنانچہ پہاڑوں کی طرف بادل اٹھے،زمین پر بارش کی وجہ سے ہریالی ہوئی اور لوگ خوش ہوگئے"
5۔اسی طرح خلیفۃ المسلمین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر نسبتی ،کاتب وحی الٰہی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حضرت یزید بن اسود جرشی مستجاب الدعوات تابعی سے دعا کرواتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے توفوراً بارش ہوجاتی(ابن عساکر جلد8/51/11 از سلیم بن عامر خبائری)
ان حوالہ جا ت سے درج ذیل مسائل معلوم ہوئے:
اگر فوت شدہ پیغمبروں اور بزرگوں کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا کو وسیلہ نہ بناتے۔کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندگی اور زندگی کے بعد بھی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو کجا سب پیغمبروں اور ولیوں سے افضل ہیں اور خدا کے مقرب رسول ہیں ۔اس لئے کسی شخص کے وصال کے بعد اس کا وسیلہ جائز نہیں ۔اس لئے تو تمام صحابہ اور انصار ومہاجرین اصحاب بیت رضوان آپ کے روضہء اطہر کو چھوڑ کر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دعا کرانے جاتے تھے۔اگرکسی برگزیدہ ہستی ذات کا وسیلہ جائز ہوتاتو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اپنے گھروں ،دکانوں ،کھیتوں میں یا جہاں کہیں بھی ہوتے ،وہیں کہتے:"اے اللہ! ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت یزید بن اسود کے وسیلے سے بارش عطا کر!"
لیکن سب کو معلوم ہے کہ انہوں نے ہرگز ایسا نہ کیا بلکہ پاس جا کر ان سے دعاکرائی ہے جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں ۔
کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام اور خصوصاً اولوالعزم پیغمبروں اورحضرت ایوب علیہ السلام ،حضرت یوسف علیہ السلام ۔حضرت یعقوب علیہ السلام ۔وغیرہم کوخطرناک بیماریوں اور مصیبتوں نے گھیرا ہے۔انہوں نے کبھی اپنے سے پہلےگزرنے والے پیغمبروں کا وسیلہ نہیں پکڑا۔اگریہ جائز ہوتاتو کم از کم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کی تعلیم کی خاطر کبھی تو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام یا حضرت اسماعیل علیہ السلام یا دیگر انبیاء علیہ السلام کی قبروں پر جاکر وسیلہ پکڑتے۔لیکن معلوم ہے کہ انہوں نے ایسا کبھی نہیں کیا۔قرآن مجید اور ساری صحیح احادیث پڑھ لیں ۔