کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 12
مسلمان ہوئی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو واپس کردیا"(باب اذا اسلم احد الزوجین)
صاحب عون المعبود فرماتے ہیں "
والحديث يدل أن الزوجين إذا أسلما معاً فهما على نكاحهما، ولا يُسأل عن كيفية وقوعه قبل الإسلام، هل وقع صحيحاً أم لا؟ ما لم يكن المبطلُ قائماً،......الختفصیل کے لئے ملاحظہ ہوزاد المعاد(4،13،14)
"حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جب زوجین اکھٹے اسلام قبول کرلیں تو ان کا پچھلا نکاح باقی رہے گا،اسلام سے قبل کس طرح یہ نکاح ہوا،اس کی کیفیت کے بارے میں بحث نہیں کی جائے گی۔الا یہ کہ نکاح کو باطل بنانے والی کوئی وجہ موجود ہو"(مثلاً محرم رشتوں سے نکاح وغیرہ)
سوال: کیاوقف چیز کو سستا فروخت کرناجائزہے؟
جواب:وقف کی تعریف علماء نے یوں کی ہے کہ"اصل چیز کو بیع،وراثت اورہبہ سے محفوظ کرلینا اور اس کی آمدنی کسی خاص مد کے لیے فی سبیل اللہ متعین کرنا وقف کہلاتا ہے۔(منہاج المسلم،ص604)اور حاشیہ میں ہے کہ اسے فروخت یا ہبہ کرنا یا بطور ترکہ ورثاء میں تقسیم کرنا درست نہیں ہے۔کیونکہ وقف کے ذریعے وہ ان تصرفات سے محفوظ کرلی گئی ہے۔اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا مفہوم یوں ادا کیاہے:
والوقف منع بيع الرقبة والتصدق بالمنفعة على وجه مخصوص (فتح الباری،5/380)
"اصل چیز کو فروخت کرنا منع ہے اور مخصوص طریق سے منافع صدقہ کرنے کا نام وقف ہے"
صحیح بخاری میں قصہ عمر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تَصَدَّقْ بِأَصْلِهِلَا يُبَاعُ وَلَا يُوهَبُ وَلَا يُورَثُ وَلَكِنْ يُنْفَقُ ثَمَرُهُ فَتَصَدَّقَ . به عمر
"اصل چیز کا صدقہ کردے اس کی بیع ،ہبہ اور وراثت میں لیناناجائز ہے۔لیکن اس کا پھل اللہ کی راہ میں صرف کردیا جائے توحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صدقہ کردیا"
(فتح الباری :ص5/392)
اس سے معلوم ہوا کہ وقف کیسٹوں کوفروخت کرنا ممنوع ہے چاہے سستی ہی کیوں نہ ہوں ۔حدیث میں مطلقاً ممانعت وارد ہے،سستی اور مہنگی کی تفریق نہیں کی گئی۔
سوال: زید اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اسلامی وراثت کے اصول پر تقسیم کرنا چاہتاہے تاکہ بعد میں اولاد میں اختلاف واقع نہ ہو،کیا ایسا کرناجائزہے؟زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کی صحیح صورت کیا ہے؟(خلیل احمد،لاہور)
جواب:بطور میراث زندگی میں جائیداد تقسیم نہیں ہوسکتی ہاں البتہ ہبہ کی صورت میں تقسیم کرنا درست ہے۔لیکن بایں وجہ ر اجح مسلک کے مطابق اولاد میں بلا امتیاز مذکر و مونث مساوات ضروری ہے۔چنانچہ قصہ نعمان بن بشیر اس امر کی واضح دلیل ہے۔جب ان کے والد نے اس کو ایک ہبہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ بنانا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا اپنی تمام اولاد کو تو نے اس کے مثل ہبہ کیا ہے۔اس نے کہا نہیں ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ہبہ سے رجوع کرلے اور دوسری ر وایت میں ہے ،کیا تو نے اپنی باقی اولاد کو بھی اس کے مثل دیا ہے؟کہا:نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ سے ڈرو اور اولاد میں عدل کرو۔ان الفاظ" اس کے مثل ہبہ کیا ہے یا اس کے مثل دیا ہے "سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بارے میں ذکورواناث میں فرق نہیں کیونکہ اولاد کا لفظ لڑکے اور لڑکیوں سب کو شامل ہے۔
سوال:عدت گزر جانے پر (سابقہ) بیوی سےدوبارہ نکاح کیاجاسکتا ہے یا نہیں ؟
(تیسری مرتبہ طلاق کے ماسوا) عدت گزرجانے کی صورت میں دوبارہ نکاح کا جواز ہے۔صحیح بخاری میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ کا قصہ اس امر کی وضح دلیل ہے۔( باب من قال لا نكاح إلا بولي )