کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 11
دار الافتاء شيخ الحديث حافظ ثناء اللہ مدنی
جامعہ لاہور الاسلامیہ ( رحمانیہ)
٭ شوہر کے مرتد ہوجانے پر تجدید نکاح؟
٭ وقف شے کو سستا فروخت کرنا؟
سوال: شوہر کے مرتد ہوجانے کی صورت میں تجدید نکاح کیا جائے گا یانہیں ؟
جواب:اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے۔اور راجح مسلک وہ ہے جس کو حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعاد (3/15) اور حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے البدایہ والنھایۃ(3/359)میں اختیار کیا ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں کہ:
"اس صورت میں قصہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں اس امر کی دلیل ہے کہ عورت جب مسلمان ہوجائے اور اس کا خاوند تاخیر سے مسلمان ہو یہاں تک کہ اس کی عدت ختم ہوجائے تو صرف اسی وجہ سے اس کا نکاح فسخ نہیں ہوگا(کہ اس کا خاوند غیر مسلم ہے) بلکہ اس میں اختیار ہے اگر عورت چاہےتو دوسرے سے نکاح کرلے اور اگرچاہے تو اپنے خاوند کے مسلمان ہونے کے انتظار میں بیٹھی رہے کہ کب وہ اسلام لاتاہے اور تب تک عورت اس کی بیوی سمجھی جائے گی جب تک آگے نکاح نہ کرلے۔"
یہ قول قوی اور فقہی اعتبار سے بھی معنی خیز ہے ۔میری رائے میں اس طرح متعارض دلائل میں تطبیق کی ایک صورت پیدا ہوجاتی ہے۔جس سے بہت ساری الجھنوں سے چھٹکارا حاصل ہوجاتاہے۔پھر موصوف نے صحیح بخاری سے چند ایک اشتہارات بطور تائید بھی پیش کئے ہیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ مسلک ار تداد اختیار کرنے سے نکاح کا معاملہ موقوف رہتاہے ٹوٹتا نہیں اور اسوقت ختم ہوتاہے جب عورت آگے نکاح کرلے بنا بریں بالاصورت میں سابقہ نکاح قائم ہے تجدید کی ضرورت نہیں ۔[1]
سوال:ہمارے گاؤں میں دو مسلمان ہوئے ہیں جو پہلے عیسائی تھے۔ان کا نکاح دوبارہ ہوگا یا نہیں ؟۔۔۔دونوں خاوند بیوی اکھٹے مسلمان ہوئے ہیں ۔(محمد طاہر ،لاہور)
جواب: اکھٹے مسلمان ہونے والے شوہر اور بیوی کادوبارہ نکاح پڑھانے کی ضرورت نہیں ،اسلامی شریعت نے جاہلیت کے نکاحوں کو قابل اعتبار سمجھاہے۔سورہ لہب میں ہے:
﴿وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ﴾
اس آیت میں ام جمیل کو ابو لہب کی بیوی قرار دیا گیا ہے۔
اور سنن ابو داود میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک شخص مسلمان ہوکر آیا،اس کے بعد اس کی بیوی مسلمان ہوگئی تو اس نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ میرے ساتھ
[1] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فیصلہ جات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے:
عن ابن عباس قال: ردَّ عليه رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِ بِالنِّكَاحِ الْأَوَّلِ وَلَمْ يَحْدُثْ شيئا (سنن ابو داود:ص304)
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں :أنّ رسول اللّٰه صَلَّى اللّٰه عليه وسلم ردّ ابنته إلى أبي العاص بعد سنتين بنكاحهاالأَوّل(سنن کبری بیہقی ج7 ص187)
اسی دوران جنگ بدر ہوئی اور ابو العاص نے مشرکین مکہ کا ساتھ دیا۔بالآخر قید بھی ہوا اور زینب بھی مکہ میں تھیں ۔جنھوں نے ابو العاص کی رہائی کےلیے اپنا ہار بھیجا:
فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِيدَةً (معجم طبرانی جلد 22 ص428)۔۔۔
ولید بن مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صفوان بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیویاں ان سے قبل مسلمان ہوئیں جبکہ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ا پنی بیوی ہند سے قبل اسلام لائے ،ان واقعات میں زوج کے اسلام لانے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے نکاح کو باقی رکھا(بیہقی :ج7ص187)