کتاب: محدث شمارہ 237 - صفحہ 10
اس کے باوجود اگر یہی رٹ لگائی جائے کہ بخاری سے پہلے احادیث کاکوئی تحریری مجموعہ موجود نہیں تھا تو سوائے جہل مرکب کے اسے اور کیا کہیے۔۔۔وقت اور وسائل کی کمی آڑے ہے ورنہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے متقدم محدثین کی دیگر کتب حدیث سے تفصیلی موازنہ پیش کرکے اس اعتراض کاتاریخی طور پر ٹھوس رد سامنے لایاجاسکتاہے۔تاکہ بعض کم علم مسلمان اس اعتراض کی وجہ سے انکارحدیث کی جس راہ پر چل نکلتے ہیں تو بچ جاتے اور اس کے بعد بھی اگر کسی کو اصرار ہوتو: ﴿ لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ﴾(الانفال:42) صحیح بخاری سے دو سو سال قبل تحریر کی جانے والی کتاب حدیث یعنی صحیفہ ہمام بن منبہ میں صحیح بخاری کی 47 روایات کے متون میں مطابقت کا پایا جانا صحیح بخاری کے متون کی صداقت کے علاوہ احادیث کی صحیح بخاری سے قبل تحریری شہادت کا دو سو سالہ قدیم ثبوت ہے۔درمیانی عرصہ کی چند کتب کا موازنہ بھی اس کا بین ثبوت ہے۔ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےجو الفاظ دو سو سال پہلے تھے،وہی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچے جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا۔لہذا زبانی روایت ک بہانے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بدل جانے کا الزام بھی بلادلیل ہے۔کہتے ہیں دیگ سے ایک چاول دیکھ کر باقی کا فیصلہ کیاجاتاہے۔یہاں تو صحیح بخاری کی 47 روایات کے متون اپنے سے دو سو سالہ قدیم مآخذ سے مطابقت رکھتے ہیں ۔یہ تحریری وتاریخی ثبوت مل جانے کے بعداہل قرآن کو قرآنی حکم ﴿اعْدِلُوا﴾پر عمل پیرا ہوکرعدل وانصاف سے کام لینا چاہیے۔انکار حدیث کی راہ ترک کرکے محدثین کے میعار پر پوری اترنے والی احادیث کی اتباع کی روش اختیار کرنی چاہیے تاکہ قیامت کے روز یوں پچھتانا نہ پڑے: ﴿ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلا ﴾