کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 9
اسی طرح معارف السنن میں حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاذ علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’قال شیخنا ویستفاد فی کتب فقھاء نا کالھدایۃ وغیرھا من ملک بملک خبیث ولم یمکنہ الردّ إلی المالک فسبیلہ التصدق علی الفقراء‘‘ (معارف السنن:ج۱، ص۳۴ )
’’ہمارے استاد کے قول او رہمارے فقہاء کی کتب مثلاً ہدایہ وغیرہ سے یہی پتہ چلتا ہے جو کسی حرام مال کا مالک ہوا اور وہ مال اس کے مالک کی طرف لوٹانے پر قادر نہیں ہے تو تب وہ فقراء پر اس مال کو صدقہ کر دے۔‘‘
اور اگر مرحوم نے اَقساط جمع نہیں کئے ہیں بلکہ کمپنی نے ہی جمع کئے ہیں تو پھر سب حرام ہے۔
جامعہ اشرفیہ ،لاہور کا جواب:اگر اس سکیم کے لئے ملازم کی تنخواہ سے جبری کٹوتی کی جاتی ہے اور ملازم کا کوئی اختیار نہیں ہوتا تو رقم آپ کے لئے جائز ہے اور اسی طرح آپ کے بچوں کے لئے بھی جائز ہے اور جو بیمہ پالیسی کوئی اپنے اختیار سے حاصل کرے، وہ سود اور جوا کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔ واللہ اعلم (جواب از مولانا داود احمد،دار الافتاء)
دار الافتاء ،جامعہ بنوری ٹاؤن،کراچی کا دوبارہ جواب: واضح رہے کہ گروپ انشورنس سکیم میں جو کٹوتی کی جاتی ہے، اس کے حلال و حرام ہونے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس سکیم میں حصہ لینے والا شخص اگر اپنے اختیار سے اس سکیم میں ماہانہ یا سالانہ اَقساط جمع کرواتا ہو یا حکومت اس کی رضا مندی سے اس کی تنخواہ سے کاٹ کر جمع کرتی ہو تو اس صورت میں یہ پالیسی ناجائز و حرام ہوگی کیونکہ یہ معاملہ سودی بن جاتا ہے اور سود لینا /دینا حرام ہے۔لہٰذا مذکورہ طریقہ سے بیمہ پالیسی میں حصہ لینا بھی بوجہ سود ہونے کے حرام ہوگا اور اس سے حاصل شدہ منافع بھی ناجائز و حرام ہوگا۔
البتہ اگر یہ حکومت کی طرف سے لازمی اور ضروری سکیم ہو اور وہ ملازم کی تنخواہ سے جبراً کٹوتی ہوتی ہو، ملازم کو یہ فنڈ قائم کرنے یا نہ کرنے کا کوئی اختیار نہ ہو تو اس صورت میں یہ رقم حلال اور قابل استعمال ہے۔ آپ کے لئے بھی اور آپ کے بچوں کے لئے بھی اس کا استعمال کرنا جائز ہے۔
اور جہاں تک دونوں فتوؤں کا تعلق ہے۔ تو ا س میں بھی یہی بات ہے کہ اگر جبراً کٹوتی کی جاتی تھی تو یہ رقم حلال اور قابل استعمال ہے۔ جیسا کہ جامعہ اشرفیہ لاہور کا فتویٰ ہے اور اگر اس میں آپ نے رضا و خوشی سے اَقساط جمع کئے تھے تو یہ معاملہ سودی ہوگا اور اس سے حاصل شدہ منافع بھی حرام ہوگا۔جب کہ بنوری ٹاؤن کی طرف سے بھی یہ یہی جواب ہے کہ ’’ہمارے سابقہ جواب میں لازمی ، جبری سکیم اور اختیاری سکیم کی وضاحت نہیں کی گئی تھی۔ لہٰذا اگر مذکورہ سکیم لازمی ہے تو پھر اسی کے مطابق عمل کر لیا جائے۔
(جواب از سید نور الہدیٰ نظامی)
٭ محترم حافظ صاحب ! کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے مسئلہ کا شرعی حل معلوم کرنے کے لئے