کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 8
دار ُالافتاء شیخ الحدیث حافظ ثنا ء ُاللہ مدنی
جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ)
٭ جی۔ پی ۔او فنڈ پر دو فتوؤں کا تعاقب
٭ زندگی میں ورثاء کو وراثت سے محروم کرنا؟
٭ سوال: میرے شوہرجو آرمی میں میجر تھے، کی ناگہانی موت پر فوج نے پنشن گھر کے علاوہ گروپ انشورنس کے نام پر مجھے اور میرے دو نابالغ بیٹوں کو دو لاکھ تیس ہزار روپے کی رقم بھی دی ہے۔ یہ حکومت ِپاکستان کی لازمی سکیم ہے جو اس کے ہر ملازم کے مرنے کی صورت میں بیوہ اور بچوں کو رقم کی شکل میں ادا کی جاتی ہے۔میرا آپ سے سوال ہے کہ:
۱۔ کیا یہ رقم جائز ہے؟
۲۔ اگر یہ رقم جائز نہیں تو اس کو کس مصرف میں استعمال کیا جاسکتا ہے؟
۳۔ ناجائز ہونے کی صورت میں بچوں کے بالغ ہونے کا انتظار کروں یا اپنی صوابدید پر خدا کی راہ میں دے دوں ؟ (ڈاکٹرنوشین طاہر، لاہور)
جامعہ بنوری ٹاؤن،کراچی کا جواب :واضح رہے کہ چونکہ موجودہ انشورنس سکیم سراسر سود ہے اور اس سے حاصل شدہ منافع بھی سودی منافع اور حرام ہے… لہٰذا صورتِ مسؤلہ میں حکومت کی طرف سے گروپ انشورنس کے نام سے جو دو لاکھ تیس ہزار روپے ملے ہیں ا س میں سے جواصل مال ہے (جو کہ مرحوم نے سال بسال اَقساط جمع کئے ہیں ) اس کو ترکہ میں شمار کیا جائے گا اور اس کا استعمال حلال ہے اور انشورنس کے نام سے جو اس پر اضافی رقم ملی ہے وہ چونکہ ربا اور جوا ہے اس لئے حرام ہے…لہٰذا اس اضافی مال کو بلانیت ِثواب ان اَشخاص پر صدقہ کیا جائے جو کہ شرعاً زکوٰۃ کے مستحق ہیں ۔ مثلاً فقراء و مساکین اور مقروض وغیرہ اور اس کا صدقہ فوری ہی کر دیا جائے، بچوں کی بلوغت کا انتظار ضروری نہیں ہے جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے
’’والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردّہ علیھم وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہٗ و یتصدق بہ بنیۃ صاحبہ‘‘ (شامی: ج۵،ص۹۹)
’’الغرض اگر مال کے اصل مالکوں کا علم ہوجائے تو وہ ان کو لوٹانا واجب ہوگااور اگر اس مال کا حرام ہونا معلوم ہوجائے تو تب حلال نہ ہوگا۔ اس کو اس کے مالک کی طرف سے نیت کرکے صدقہ بھی کیا جاسکتاہے‘‘