کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 7
’’صوموا یوم عاشوراء وخالفوا الیھود صوموا قبلہ یوما أو بعدہ یوم‘‘
(مسند احمد :ج ۴،ص ۲۱ طبع جدید ،مجمع الزوائد :ج ۳ ،ص ۱۸۸)
’’عاشورہ (۱۰/ محرم) کا روزہ تو ضرور رکھو ۔لیکن یہودیوں کی مخالفت بھی بایں طور کرو کہ اسکے بعد یا اس سے قبل ایک روزہ اور ساتھ ملالیا کرو:۹،۱۰ محرم یا ۱۰ ،۱۱ محرم کا روزہ رکھا کرو۔‘‘
ایک من گھڑت روایت:محرم کی دسویں تاریخ کے بارے میں جوروایت بیان کی جاتی ہے کہ اس دن جو شخص اپنے اہل وعیال پر فراخی کرے گا، اللہ تعالیٰ سارا سال اس پر فراخی کرے گا،بالکل بے اصل ہے جس کی صراحت امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محققین نے کی ہے… چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
’’ھذا من البدع المنکرۃ التی لم یسنّھا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ولا خلفاء الراشدون ولا استحبھا أحد من أئمۃ المسلمین لا مالک ولا أحمد بن حنبل ولا الشافعي ولا أسحٰق بن راھویہ ولا أمثال ھولاء من الائمۃ المسلمین ‘‘
’’۱۰محرم کو خاص کھانا پکانا ،توسیع کرنا وغیرہ من جملہ اِن بدعات ومنکرات سے ہے جو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے نہ خلفاء ِراشدین سے او رنہ ائمہ مسلمین میں سے کسی نے اس کو مستحب سمجھا ہے ۔‘‘ (فتا ویٰ ابن تیمیہ :ج ۲ ،ص ۳۵۴)
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول مذکورہ روایت کے متعلق امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ذکرکیا ہے کہ لا أصل لہ، فلم یرہ شیئا ’’اس کی کوئی اصل نہیں ،امام احمد نے اس روایت کو کچھ نہیں سمجھا ‘‘ (منھاج السنۃ: ج ۲ ص ۲۴۸ او رفتاویٰ مذکور) … اسی طرح امام صاحب کی کتاب اقتضاء ا لصراط المستقیم میں اس کی صراحت موجود ہے
(ص ۳۰۱، طبع مصر ۱۹۵۰ء )
اور امام محمد بن وضاح نے اپنی کتاب میں امام یحییٰ بن یحییٰ (متوفی ۲۳۴ ھ) سے نقل کیا ہے :
’’میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں مدینہ منورہ اورامام لیث ،ابن القاسم او رابن وہب کے ایام میں مصر میں موجودتھا اور یہ دن (عاشوراء) وہاں آیا تھا میں نے کسی سے اس کی توسیع رزق کا ذکر تک نہیں سنا ۔اگر ان کے ہاں کوئی ایسی روایت ہوتی توباقی احادیث کی طرح اس کا بھی وہ ذکر کرتے۔‘‘ ( البدع والنھی عنھا : ص ۱۴۵)
اس روایت کی پوری سندی تحقیق حضرت استاذِ محترم مولانا محمد عطاء ا للہ حنیف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مفصل مضمون میں کی ہے جو ہفت روزہ’’الاعتصام‘‘ ۱۳ /مارچ ۱۹۷۰ء میں شائع ہوا تھا ۔ من شاء فلیراجعہ
یہ تمام مذکورہ اُمور وہ ہیں جواہل سنت کے عوام کرتے ہیں ،شیعہ اِن ایام میں جو کچھ کرتے ہیں ، ان سے اس وقت بحث نہیں ، اس وقت ہمارا روئے سخن اہل سنت کی طرف ہے کہ وہ بھی دین اسلام سے ناواقفیت ،عام جہالت اور شیعیت کی دسیسہ کاریوں سے بے خبر ی کی بنا پر مذکورہ بالا رسومات بڑی پابندی او راہتمام سے بجالاتے ہیں حالانکہ یہ تمام چیزیں اسلام کے ابتدائی دور کے بہت بعد ایجاد ہیں جو کسی طرح بھی دین کا حصہ نہیں او رنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو ردّ‘‘
(متفق علیہ ،مشکوٰۃ) ’’دین میں ہرنو ایجاد کام مردود ہے ‘‘ کے مصداق ان سے اجتناب ضروری ہے ۔٭