کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 5
نصوص کی وجہ سے ہم ا س امرکے پابند ہیں کہ تما م صحابہ کو نفس صحابیت کے احترام میں یکساں عزت واحترام کا مستحق سمجھیں …اس سلسلے میں یہ حدیث ہر وقت ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے :
’’عن عبد اللّٰه بن مغفل قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : اللّٰه اللّٰه فی أصحابی لا تتخذوھم غرضا من بعدي فمن أحبھم فبحبّی أحبھم ومن أبغضھم فببغضي أبغضھم ومن أذاھم فقد أذاني ومن أذاني فقد أذیٰ اللّٰه ومن أذیٰ اللّٰه فیوشک أن یأخذہ ‘‘ (رواہ الترمذی ص ۲۲۶ ج ۲ وقال ھذا حدیث غریب)
’’میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو! میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع کا )نشانہ نہ بنانا (یاد رکھو) جس نے اِن سے محبت کی ،پس میری محبت کی وجہ سے اِس نے اُن سے محبت کی ۔ جس نے اُن سے بغض رکھا پس میرے بغض کی وجہ سے اُن سے بغض رکھا اور جس نے اُن کو اذیت دی پس اس نے مجھے اَذیت دی جس نے مجھے اَذیت دی ، اس نے اللہ کواذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی، پس قریب ہے کہ وہ اس کو گرفت کر لے ۔‘‘
اسی سلسلے کی دو حدیثیں اور قابل ملاحظہ ہیں :
عن أبي سعید الخدري قال قال النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم لا تسبّوا أصحابي فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذھَبًا ما بلغ مد أحدھم ولانصیفہ …متفق علیہ
(مشکوٰۃ)
’’میرے صحابہ پر سب نہ کرو (یعنی انہیں جرح وتنقید او ربرائی کاہدف نہ بناؤ) انہیں اللہ نے اتنا بلند رتبہ عطا فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اگر اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ کسی صحابی کے خرچ کردہ ایک مد (تقریباً ایک سیر ) بلکہ آدھے مد کے بھی برابر نہیں ہو سکتا۔‘‘
عن ابن عمر رضی اللّٰه عنہ قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم إذا رأیتم الذین یسبّون أصحابي فقولوا لعنۃ اللّٰه علی شَرِّکُم ، ھذا حدیث منکر
(ترمذی ج ۲ ،ص ۲۲۷)
’’جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی برائی کر رہا ہے تو تم کہو ،تم میں سے (یعنی برائی کرنے والے اور جس کی برائی کی جارہی ہے اُن میں سے ) جو بدتر ہو ،اس پر اللہ کی لعنت ہو‘‘
ظاہر ہے صحابہ کے مقابلے میں اُن کی برائی کرنے والا ہی بدتر ہو گا، اس لیے لعنت ِخداوندی کا مستحق اُس کے سوا اور کون ہوسکتا ہے ۔
(۳) ماہ ِمحرم اور عاشورۂ محرم
عشرہ ٔ محرم (محر م کے ابتدائی دس دن) میں شیعہ حضرات جس طرح مجالس عزا او رمحافل ماتم برپا کرتے ہیں ۔ظاہر بات ہے کہ یہ سب اختراعی چیزیں ہیں اورشریعت ِاسلامیہ کے مزاج سے قطعاً مخالف ۔اسلام نے تو نوحہ وماتم کے اس انداز کو ’جاہلیت‘ سے تعبیر کیا ہے او راس کام کو باعث ِلعنت بلکہ کفر تک پہنچا دینے والا بتلایا ہے ۔
بد قسمتی سے اہل سنت میں سے ایک بدعت نواز حلقہ اگرچہ نوحہ وماتم کا شیعی انداز تو اختیار نہیں کرتا لیکن اِن دس دنوں میں بہت سی ایسی باتیں اختیار کرتا ہے جن سے رفض وتشیع کی ہم نوائی اور ان کے مذہب ِباطل کا فروغ ہوتا ہے ۔مثلاً