کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 43
ایک روزہ رکھنے کو مکروہ سمجھتے تھے ۔جبکہ دیگر علماء اس روزے کو مستحب سمجھتے ہیں ۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ روزہ اس کے لئے مستحب ہے جو ۹ تاریخ کا بھی روزہ رکھے کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری ارادہ تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال ۹ تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا۔
خلافِ عادت کھانا یا عبادت کرنا
روزہ کے علاوہ اُمور مثلاً خلافِ عادت کھانا پکانا خواہ دانے ہوں یا کوئی اور چیز یا نیا لباس پہننا اور کھلا خرچ کرنا اور اس دن سال بھر کی ضروریاتِ زندگی خریدنا یا کوئی خاص عبادت کرنا، مثلاً خاص نماز یا جانور ذبح کرنا اور اس طرح سرمہ لگانا، نہانا، مہندی لگانا، مصافحہ کی کثرت یا مسجدوں کی زیارت کرنا وغیرہ یہ سب کچھ بدعات ِمنکرہ ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاءِ راشدین اور ائمہ کرام نے ان کو مستحب نہیں سمجھا، نہ مالک اور ثوری نے ،نہ لیث بن سعد اور ابوحنیفہ و اوزاعی نے اور نہ ہی شافعی و احمد (رحمہم اللہ) اور اسحاق راہویہ اور دیگر اصحاب نے اسے مستحب سمجھاہے۔
اگرچہ بعض متاخرین ان میں بعض اُمور کا حکم دیتے ہیں اور اس سلسلے میں بعض آثار و احادیث بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان اُمور میں بعض صحیح ہیں ۔ لیکن اہل علم خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ واضح غلطی پر ہیں ۔ حرب کرمانی کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے اس حدیث ((من وسّع علی أھل یوم عاشوراء))’’جس نے یوم عاشوراء کو فراخی کا اہتمام کیا‘‘کے متعلق سوال کیا گیا تو امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ثابت شدہ امرنہ سمجھا ( فلم یرہ شیئًا)…اس بارے میں ان کی سب سے بڑی دلیل وہ ہے جو ابراہیم بن محمد نے اپنے باپ سے روایت کی ہے :
((بلغنا أنه من وسع علی أھله یوم عاشوراء وسع اللّٰه علیه سائر سنته ))
’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جس نے یوم عاشوراء منانے والوں پر فراخی کی تو اللہ اس پر پورا سال کشادگی فرمائے گا‘‘
مزید کہتے ہیں کہ ہم نے اس بات کو ساٹھ سال سے آزمایا اور صحیح پایا ہے ۔ اس روایت کے راوی ابراہیم بن محمد بن منتشر اہل کوفہ سے ہیں اور انہوں نے اس شخص کا نام نہیں لیا جس سے انہوں نے روایت کی ہے اور نہ ہی اس کا نام لیا ہے جس سے اسے یہ بات پہنچی ہے۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس قول کا کہنے والا اہل بدعت سے ہو جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اس کے ساتھیوں سے بغض رکھتے ہیں ، جو رافضیوں کا مقابلہ جھوٹ سے کرتے ہیں اور فاسد کا بدلہ فاسد سے اور بدعت کا بدلہ بدعت سے دیتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ یہ سفیان بن عیینہ کا قول ہے جبکہ شریعت میں ابن عیینہ کا قول بھی حجت نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑا انعام کیا تھا لیکن نعمت ِخداوندی کی وجہ یہ نہیں کہ وہ یوم عاشوراء کو فراخی کی