کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 42
ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((إنه من یعش منکم بعدي فسيری اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتي و سنة الخلفاء الراشدین من بعدي تمسکوا بھا وعضوا علیھا بالنواجذ وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل بدعة ضلالة))
’’ جو شخص میرے بعد زندہ رہا وہ عنقریب بڑے اختلافات دیکھے گا پس تم پر میرے بعد میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے، اسے لازم پکڑلواور اسے اپنی داڑھوں میں لے کر اس چمٹ جاؤ اور نئے امور سے بچو کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے‘‘
یومِ عاشوراء کی شرعی حیثیت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاءِ راشدین سے عاشوراء کے دن ان امور سے کوئی چیز ثابت نہیں جو آج ہم اپنے گردوپیش دیکھتے ہیں ، نہ ہی رونے پیٹنے اور نہ خوشی کرنے کے متعلق کوئی ہدایت موجود ہے۔ صرف اتنا ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو دیکھا کہ یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کیسا روزہ ہے، انہوں نے کہا: اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی، پس ہم روزہ رکھتے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تم سے زیادہ حقدار ہیں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور رکھنے کا حکم بھی دیا ۔قریش بھی اسی وجہ سے جاہلیت میں اسی دن کی تعظیم کرتے تھے۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوروزے کا حکم دیا تو یہ ایک دن کا روزہ تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول میں مدینہ تشریف لائے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ سال روزہ رکھا اور روزے کا حکم دیا، پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت منسوخ ہوگئی۔اور علماءِکرام کا اس بارے میں اختلا ف ہے کہ آیا یہ روزہ واجب تھا یا نہیں ؟پھر اس کے بعد جو یہ روزہ رکھتا تھا، مستحب جان کر رکھتا تھا اور آپ نے عام لوگوں کو اس دن کے روزے کا حکم نہیں دیا کہ بلکہ فرمایا:
’’ھذا یوم عاشوراء وأناصائم فیه فمن شاء صام‘‘
’’ یہ عاشوراء کا دن ہے اور میں روزہ دار ہوں جو چاہے اس دن کا روزہ رکھ لے‘‘
اور یہ بھی فرمایا:
((صوم یوم عاشوراء یکفر سنة وصوم یوم عرفة یکفرسنتین))
’’ عاشوراء کے دن کا روزہ سال بھر کے گناہ معاف کردیتا ہے اور یوم عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘
اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر عمر میں یہود کو دیکھا کہ یہود اس دن کو عید بھی سمجھتے ہیں تو آپ نے فرمایا اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا۔یعنی آپ یہودیوں کی مخالفت کریں گے اور ان کے عید منانے میں مشابہت نہیں کریں گے۔
بعض صحابہ ایسے بھی تھے جو اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے اور نہ مستحب سمجھتے تھے بلکہ اسی دن