کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 4
مثلا ایک ’مفکر‘ نے یہاں تک فرما دیا کہ نبی اکرم سے قلیل صحبت ہونے کی وجہ سے بعض صحابہ کی قلب ِماہیت نعوذ باللہ نہیں ہوئی تھی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ تمام اعلیٰ وادنیٰ صحابہ رضی اللہ عنہم کا فرقِ مراتب کے باوصف بحیثیت ِصحابی ہونے کے یکساں عزت واحترام اسلام کا مطلوب ہے ۔کسی صحابی کے حق میں بھی زبان طعن وتشنیع کھولنا اورریسرچ کے عنوان سے نکتہ چینی کا جواز نکالنا نا ہلاکت وتباہی کے خطرہ کو دعوت دینا ہے ۔ صحابی کی تعریف ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی اکرم کو دیکھا ہو او رقرآن وحدیث میں صحابہ کرام کے جو عمومی فضائل ومناقب بیان کیے گئے ، ان کا اطلاق بھی ہر صحابی پر ہو گا۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے الإصابۃ میں صحابی کی جس تعریف کو سب سے زیادہ صحیح اور جامع قرار دیا ہے وہ یہ ہے: (الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ ،طبع جدید) واَصح ما وقفتُ علیہ من ذلک أن الصحابي من لقی مؤمنا بہ ومات علی الاسلام فیدخل فیمن لقیہ من طالت مجالستہ لہ أو قصرت ومن روی عنہ أو لم یرو ومن غزا معہ أو لم یغزو من راٰہ رؤیۃ ولو لم یجالسہ ومن لم یرہ بعارض کالعمی ’’سب سے زیادہ صحیح تعریف صحابہ کی جس پر میں مطلع ہوا ،وہ یہ ہے کہ ’’وہ شخص جس نے ایمان کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام پر ہی اس کی موت ہوئی‘‘ پس اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جس نے آپ سے ملاقات کی (قطع نظر اس سے کہ) اسے آپ کی ہم نشینی کا شرف زیادہ حاصل رہا یاکم، آپ سے روایت کی یا نہ کی ۔ آپ کے سا تھ غزوات میں شریک ہوا یا نہیں او رجس نے آپ کو صرف ایک نظرہی سے دیکھا ہو او رآپ کی مجالست وہم نشینی کی سعادت کا موقع اُسے نہ ملا ہو ا ور جو کسی خاص سبب کی بنا پر آپ کی رؤیت کا شرف حاصل نہ کرسکا ہو جیسے نابینا پن‘‘ (سب ہی صحابہ کی اصطلاح میں شامل ہیں ) اس لیے اہل سنت کا خلفاء ِاربعہ: ابوبکر رضی اللہ عنہ وعمر رضی اللہ عنہ وعثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اُن جیسے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کی عزت وتوقیر کو ملحوظ رکھنا لیکن بعض اُن جلیل ُالقدر اصحاب ِرسول کی منقبت وتقدیس کا خیال نہ رکھنا یا کم ازکم انہیں احترامِ مطلوب کا مستحق نہ سمجھنا جن کے اسمائے گرامی مشاجرات کے سلسلے میں آتے ہیں جیسے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ،حضرت عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص ، حضرت مغیر ہ بن شعبہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں ، یکسر غلط اور رفض وتشیع کا ایک حصہ ہے۔اہل سنت کو اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ خلفائے راشدین کی عزت وتوقیر تو کسی حد تک معقولیت پسند شیعہ حضرات بھی ملحوظ رکھنے پر مجبور ہیں او ران کا ذکر وہ نامناسب انداز میں کرنے سے بالعموم گریز ہی کرتے ہیں البتہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ،عمروبن ا لعاص رضی اللہ عنہ وغیرہ کو وہ بھی معاف نہیں کرتے ۔اگر صحابہ کرام کے نام لیوابھی یہی موقف اختیار کر لیں تو پھر محبانِ صحابہ اور دشمنانِ صحابہ میں فرق کیا رہ جاتا ہے ؟ او ر ان صحابہ کواحترامِ مطلوب سے فروتر خیال کر کے ان کے شر ف وفضل کو مجروح کرنا کیا صحابیت کے قصر رفیع میں نقب زنی کا ارتکاب نہیں ہے ؟کیا اس طرح نفس صحابیت کا تقدس مجروح نہیں ہوتا؟اور صحابیت کی ردائے عظمت (معاذ اللہ) تارتار نہیں ہوتی؟ بہر حال ہم عرض یہ کر رہے تھے کہ قرآن وحدیث میں صحابہ کرام کے جو عمومی فضائل ومناقب مذکور ہیں وہ تمام صحابہ کو محیط وشامل ہیں اس میں قطعاً کسی استثناء کی کوئی گنجائش نہیں ہے او ران