کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 39
آپ کے ساتھی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی بہ نسبت حق کے زیادہ قریب تھے اور دونوں ہی ایماندار تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت اور خلافت حضرت حسن رضی اللہ عنہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ابتدائی ساتھیوں اور بعد کے دشمن خارجیوں میں سے بد بخت شخص عبد الرحمن بن مُلجم کوفی نے امیرالمو ٔمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کوشہید کیا۔ آپ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور خلافت کے ناموس کا تحفظ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ آپ کے بعدصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی، آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے منبر پرفرمائی تھی کہ
((إن بني ھذا سید وسیصلح اللّٰه به بین فئتین عظمیتین من المسلمین))
’’ میرا یہ بیٹا سید ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرا ئے گا‘‘
حضرت حسن رضی اللہ عنہ خلافت سے دستبردار ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ دونوں مسلمانوں کے دوگروہوں میں صلح کرا دی۔ اسی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کی تعریف و مدح فرمائی۔ اور یہ بات دلالت کرتی ہے کہ صلح واصلاح ہی وہ وہ چیزہے جو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے ۔اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم ا سی کی تعریف کرتے ہیں ۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کوفیوں کی ریشہ دوانیاں :پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ فوت ہو کر بزرگی اور اللہ کی رضا مندی حاصل کرگئے ۔بعد میں چند گروہ کھڑے ہوئے، انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت کی اور خلافت کے معاملے میں آپ کو نصرت کا یقین دلایا لیکن وقت آنے پراس عہدکو پورا نہ کر سکے، بلکہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف اپنے چچازاد بھائی کو بھیجا تو انہوں نے وعدہ خلافی کی، عہد کوتوڑا اور جس کو حمایت و دفاع کا یقین دلایا تھا، ا سی کے خلاف ہوگئے۔
سفر حسین رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشورے: جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ جانے کاارادہ کیا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے دلی محبت رکھنے والے دانشمند صحابہ رضی اللہ عنہم مثلاً عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ کوفہ نہ جائیں اور اہل کوفہ کی پیش کش قبول نہ کریں ، انہوں نے خیال کیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا وہاں جانا درست نہیں ، اور آپ کے کوفہ جانے سے خوش آئند اثرات مرتب نہ ہوں گے، او رانہوں نے جیسا کہا تھا ویسا ہی ہوااور دراصل ہر کام اللہ کی تقدیر کے مطابق ہو کر رہتاہے۔
جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوفہ کی طرف نکل پڑے تووہاں جاکر کیا دیکھتے ہیں کہ معاملہ الٹ ہوچکاہے او رکوفیوں کی وفاداریاں طوطا چشمی بن چکی ہیں ، محبت دشمنی کاروپ دھار گئی ہے۔تب انہوں نے کوفیوں سے کہا کہ مجھے واپس لوٹنے دو یا بعض محاذوں پر جانے دویا مجھے اپنے چچازاد بھائی یزید کے پاس جانے دو۔ لیکن انہوں نے ایک بھی نہ مانی اور آپ رضی اللہ عنہ کو قید کرنا چاہا اور آپ رضی اللہ عنہ سے جنگ کی ، آپ بھی مقابلہ میں لڑے، انہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کیا، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ مظلوم شہید ہوئے آپ کو اللہ نے مرتبہ شہادت سے نوازا اور آپ کو اہل بیت طاہرین کے ساتھ ملایا اور آپ کو ظلم سے شہید