کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 37
وظائف جاری کئے، دفاتر قائم کئے ، عدل و انصاف کو وسعت دی اور سنت کو قائم کیا ۔ آپ کے دورِ خلافت میں اسلام نے فروغ پایا جس کی تصدیق قرآنِ کریم میں ہے:
﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا﴾ (سورۂ فتح: ۲۸)
’’ اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو سب اَدیان پر غالب کردے ، اس پر اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا﴾ (سورۂ نور: ۵۵)
’’ اللہ نے تم میں سے مؤمن اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین پر ایسے خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا اور ان کے اس دین کو استحکام عطا فرمائے گاجو ان کے لئے اس نے پسند کیا ہے، اور ان کا خوف اَمن میں بدل دے گا، چنانچہ وہ میری عبادت کریں گے ، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے‘‘
اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((إذا ھلك کِسری فلا کسری بعدہ وإذا ھلك قیصر فلا قیصر بعدہ والذي نفسی بیدہ لتُنْفِقَنَّ کنوزَھما في سبیل اللّٰه))
’’ جب کسریٰ ہلاک ہوا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا اور قیصر کی ہلاکت کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا، ا س ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم ضرور ان کے خزانوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی وہ شخصیت ہیں ، جنہوں نے ان خزانوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور آپ ہی خلیفہ ٔراشد اور ہدایت یافتہ تھے ۔پھر آپ نے معاملہ خلافت چھ آدمیوں کی شوریٰ پر ڈال دیا۔
خلافت ِحضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور شہادت:پھرمہاجرین و انصار نے بغیر کسی خوف و طمع کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اتفاق کیا اور سب نے بلا جبر و اِکراہ بیعت کرلی۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخر میں کچھ اَسباب پیدا ہوئے کہ فسادی لوگ اہل علم پر ظالمانہ طور پر غالب آگئے اور وہ فتنے پھیلاتے رہے، حتیٰ کہ انہوں نے بغیر کسی سبب کے صابر و محتسب خلیفہ کو ظالمانہ طریقہ سے شہید کردیا۔
آپ کی شہادت کے بعد دلوں میں دوری ہوگئی، مصائب بڑھ گئے، شریر غالب ہوئے اور شرفاء مغلوب اور جس خیر و صلاح کا قیام مسلمانوں کے مابین واجب تھا، وہ جاتا رہا اورخیر وفلاح سے عاجز رہنے والے فتنہ وفساد پھیلانے میں پیش پیش ہونے لگے۔
خلافت ِحضرت علی رضی اللہ عنہ :انہوں نے امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور آپ اس وقت سب سے زیادہ خلافت کے حقدار تھے اور بقیہ لوگوں سے افضل تھے، لیکن دل جدا تھے اور فتنہ کی آگ بھڑک رہی تھی۔ معاملہ متفق نہ رہ سکا اور جماعت منظم نہ ہوسکی اور خلیفہ راشد و صحابہ کرام خیر و صلاح کوقائم