کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 35
اس پر اللہ تعالیٰ ساراسال فراخی ٔرزق کردے گا‘‘ ابراہیم بن محمد بن منتشر کوفیوں سے تھا اور کوفہ میں د وگروہ تھے۔ ایک گروہ رافضیوں کاتھا جو اہل بیت کی محبت کا مدعی تھا اور اندرونی طور پر بے دین تھا یا جاہل اور ہوا و حرص کا پجاری، دوسرا گروہ ناصبیوں کا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا، کیونکہ ان کے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان لڑائیاں ہوئی تھیں ۔ دونوں فرقوں کی ضلاتوں کا پس منظر صحیح مسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((سیکون في ثقیف کذاب و مبیر)) ’’عنقریب قبیلہ ثقیف میں کذاب اور ظالم ہوگا‘‘ کذاب تو مختار بن ابی عبید ثقفی تھا جو بظاہر اہل بیت کی محبت کا مدعی اور ان کا مددگار تھا اور اس نے حضرت حسین بن علی اور ان کے ساتھیوں سے لڑائی کرنے والے فوجی دستہ کے اعلیٰ افسر عبید اللہ بن زیاد امیر عراق کو قتل کیا (او راس کے تمام ساتھیوں کی تکہ بوٹی کردی تھی)۔پھر اس نے جھوٹ بولا اور نبوت کا دعویٰ کر دیا اور کہا کہ ا س پر جبریل علیہ السلام نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ لوگوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ مختار بن ابی عبید دعویٰ کرتا ہے کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ وہ سچ کہتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ (221) تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ﴾ (شعراء:۲۲۲ ) ’’کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ شیاطین کن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں ، وہ ہر جھوٹ بولنے والے اور گناہ گار پر نازل ہوتے ہیں ‘‘ اورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی انہیں جواباً فرمایا کہ اس نے سچ کہا ﴿وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ﴾ (سوره انعام: ۱۲۱) ’’ اور شیطان اپنے ہم نواؤں کی طرف خفیہ پیغام بھیجتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑیں ‘‘ جبکہ ظالم و جابر سے مراد حجاج بن یوسف ثقفی تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ سے عناد رکھتا تھا، او رپہلا کذاب ثقفی تھاجو روافض میں سے تھااور بہت بڑا جھوٹا اور دین میں الحاد کرنے والا تھا ، کیونکہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ۔ اوردوسرا ثقفی ظالم ، ناصبی تھا اور اپنی حکومت کے خلاف کچھ کہنے والے کو سخت سزا دیتا تھا۔ جس شخص کو امیر عبدالملک کی نافرمانی کے الزام میں پکڑتا تواس سے شدیدانتقام لیتا…کوفہ میں ان دونوں گروہوں کے مابین لڑائیاں اور فتنے عرصہ تک جاری رہے۔ عاشوراء کے دن حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور آپ کو ظالم اور باغی گروہ نے قتل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسی طرح درجہ شہادت سے سرفراز فرمایا جس طرح آپ کے اہل بیت میں سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کو درجہ شہادت عطا فرمایا تھا اور شہادت کے سبب اللہ تعالیٰ نے آپ کا درجہ اور مقام بلند کردیا، کیونکہ آپ اور آپ کے برادر حضرت حسن رضی اللہ عنہ جنت کے نوجوانوں کے