کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 33
زمین وآسمان پیدا فرمائے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ، یہی سیدھا ( اور معتدل) دین ہے ، لہٰذا تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔‘‘ (التوبۃ : ۳۶) جس طرح حرمت والے مہینوں میں محرم الحرام کو شہر اللہ ہونے کاشرف حاصل ہے اس طرح اس مہینے کے دنوں میں عاشوراء کو بھی خاص شرف حاصل ہے کیونکہ اس دن اللہ نے حضرت آدم کی توبہ قبول فرمائی تھی اور بروایت امیر المو ٔ منین حضرت علی المرتضیٰ اسی دن قوم یونس کی توبہ قبول ہوئی اور ان سے عذاب ٹل گیا۔ مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کے روزبنی اسرائیل کی ایک جماعت پر سے گزرے اوروہ روزہ سے تھے۔ آپ نے ان سے اس دن کے روزہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا: یہ وہ دن ہے جس میں اللہ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو نجات دی تھی اور فرعونِ مصر کو غرق کیا تھا تو اللہ کے رسول نے فرمایا:ہم موسیٰ علیہ السلام کی موافقت کے تم سے زیادہ حق دار ہیں ،لہٰذا آپ نے اپنے صحابہ کو اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ صحابہ کرام اس روز خود بھی روزہ رکھتے تھے اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے اور ان کے لیے کھلونے بناتے جب وہ روتے تو انہیں ان سے شام تک بہلاتے تھے اور یہ معاملہ فرضیت صیام رمضان تک رہا۔ اس کے بعد اس کی پابندی ختم ہو گئی اور فضیلت باقی رہ گئی ۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے عاشوراء کے روزے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ((أحتسب علی اللّٰه أن یُکفِّرَ السنة التي قبله)) ’’میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کے بدلے گذشتہ سال کے گناہ معاف فرمائے گا‘‘ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ہمیں عاشوراء کے روزے کاحکم دیتے تھے اور اس کی فضیلت بھی بتاتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے اس کی پابندی کا حکم ترک کر دیا ہاں البتہ آپ خود روزہ ضرورر کھتے بلکہ فرمایا تھا کہ میں آئندہ سال دو روزے رکھوں گا لیکن آپ کی عمر نے وفا نہ کی ۔ (لطائف المعارف لامام ابو الفرج ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ بغدادی) الغرض عاشوراء کے روز کرنے کا کام تو یہ تھا جو حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کرتے تھے لیکن شیطان نے اکثر مسلمانوں کو اصل راہ سے ہٹا کر اِفراط وتفریط میں مبتلا کر دیا کچھ لوگوں نے اس روز کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی وجہ سے یومِ ماتم بنالیا چنانچہ وہ اس روز زنجیر زنی کر کے اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ،حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿فَلاَ تَظْلِمُوْا فِيهِنَّ أنْفُسَكُمْ﴾ کہ تم ان حرمت والے مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔اور کچھ لوگ اس دن کو یومِ مسرت وسرور قرار دے کر خوب کھلاتے پلاتے بھی ہیں اور کھاتے پیتے بھی ہیں اور سرمہ،مہندی لگانے اور نہانے دھونے کو افضل سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں کچھ روایات بیان کرتے ہیں جن کی حقیقت امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس رسالہ میں بیان کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں افراط وتفریط سے بچائے او رخالص اسلام پرچلنے کی توفیق دے۔ آمین (عبدالجبار سلفی)