کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 3
ایسی بستی اور شہرپر حجت تمام کر کے وہاں سے ہجرت اختیار کر لی جائے ۔چنانچہ اسی واقعہ ٔہجرت نبوی پرسن ہجری کی بنیاد رکھی گئی ہے جو نہ توکسی انسانی برتری اور تفو ّق کو یاد دلاتا ہے اور نہ شوکت و عظمت کے کسی واقعہ کو ، بلکہ یہ واقعہ ٔہجرت مظلومی اور بیکسی کی ایک ایسی یادگار ہے کہ جو ثبات ِقدم ، صبرواستقامت اورراضی برضائے الٰہی ہونے کی ایک زبردست مثال اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے ۔یہ واقعہ ہجرت بتلاتا ہے کہ ایک مظلوم وبے کس انسان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہو سکتا ہے اورمصائب وآلام سے نکل کر کس طرح کامرانی وشادمانی کازرّیں تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے اور پستی وگمنامی سے نکل کر رفعت وشہرت اور عزت وعظمت کے بامِ عروج پر پہنچ سکتا ہے … علاوہ ازیں یہ مہینہ حرمت والا ہے اور اس ماہ میں نفل روزے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں جیسا کہ حدیث ِنبوی میں ہے ۔ یہ بھی خیال رہے کہ اس مہینے کی حرمت کا سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ ٔشہادت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مہینہ اس لیے قابل احترام ہے کہ اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کاسانحہ ٔ دل گداز پیش آیا تھا ۔یہ خیال بالکل غلط ہی۔ یہ سانحہ ٔشہادت توحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ۵۰ سال بعد پیش آیا اوردین کی تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی کردی گئی تھی:﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإسْلاَمَ دِیْنًا﴾ اس لیے یہ تصور اس آیت ِقرآنی کے سرا سر خلاف ہے ۔پھر خود اسی مہینے میں اس سے بڑھ کر ایک اورسانحہ ٔ شہادت اورواقعہ ٔ عظیم پیش آیا تھا یعنی یکم محرم کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہاد ت کا واقعہ ۔ اگر بعد میں ہونے والی شہادتوں کی شرعاً کوئی حیثیت ہوتی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت اس لائق تھی کہ اہل اسلام اس کااعتبار کرتے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ایسی تھی کہ اس کی یادگار منائی جاتی اور پھر ان شہادتوں کی بنا پر اگر اسلام میں ماتم وشیون کی اجازت ہوتی تویقینا تاریخ اسلام کی یہ دونوں شہادتیں ایسی تھی کہ اہل اسلام اس پر جتنی بھی سینہ کوبی اور ماتم وگریہ زاری کرتے ،کم ہوتالیکن ایک تو اسلام میں اس ماتم وگریہ زاری کی اجازت نہیں ،دوسرے یہ تمام واقعات تکمیل دین کے بعد پیش آئے ہیں ،اس لیے اِن کی یاد میں مجالس عزا اور محافل ماتم قائم کرنا دین میں اضافہ ہے جس کے ہم قطعاً مجاز نہیں ۔ (۲) عشرۂ محرم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا احترامِ مطلوب عشرۂ محرم میں عام دستور ورواج ہو گیا ہے کہ شیعی اثرات کے زیر اثر واقعات ِکربلاکو مخصوص رنگ اور افسانوی ودیومالائی انداز میں بیان کیا جاتا ہے ۔شیعی ذاکرین تو اس ضمن میں جو کچھ کرتے ہیں وہ عالم آشکارا ہے لیکن بد قسمتی سے بہت سے اہل سنت کے واعظانِ خوش گفتار اور خطیبانِ سحر بیان بھی گرمی ٔمحفل او رعوام سے داد وتحسین وصول کرنے کے لیے اُسی تال سریں ،اُن واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں جو شیعیت کی مخصوص ایجاد اوران کی انفرادیت کا غماز ہے ۔اس سانحہ ٔشہادت کا ا یک پہلو صحابہ کرام پر تبرا بازی ہے جس کے بغیر شیعوں کی محفل ’’ماتم حسین‘‘ مکمل نہیں ہوتی۔ اہلسنّت اس پستی وکمینگی تک تو نہیں اُترتے تا ہم بعض لوگ بوجوہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم پر کچھ نکتہ چینی کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے