کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 25
٭ اے جھوٹے! تم کیوں دوبارہ آگئے ہو؟
جن: میں آپ کو ہر بات بتاؤں گا بشرطیکہ آپ نے مجھے مارنا نہیں ہے۔
٭ بتاؤ۔
جن: ہاں ، واقعی میں نے ان سے جھوٹ بولا تھا، اور میں نے ہی تکیے میں وہ کاغذ رکھے تھے تاکہ وہ میری بات مان لیں ۔
٭ تو تم نے ان سے دھوکہ کیا ہے؟
جن: میں کیا کروں ، مجھے تو اس کے جسم کے ساتھ قید کردیا گیاہے۔
٭ کیا تم مسلمان ہو؟
جن: جی ہاں
٭ کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ جادوگر کے ساتھ کام کرے، یہ حرام ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، کیا تمہیں جنت نہیں چاہئے؟
جن: جی ہاں ، مجھے جنت چاہئے۔
٭ تب جادو گر کو چھوڑ دو، اور مؤمن جنوں کے ساتھ رہ کر اللہ کی عبادت کرو، کیونکہ جادو گر کا راستہ دنیا میں تجھے بدبخت بنا دے گا اور آخرت میں جہنم میں لے جائے گا۔
جن: لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے، وہ تو مجھ پر قابو پائے ہوئے ہے؟
٭ اس نے تم پر اس لئے قابو پایا ہوا ہے کہ تم گناہ کرتے ہو، اور اگر تم سچی توبہ کر لو تو وہ کبھی تم پر قابو یافتہ نہیں ہوسکتا، فرمانِ الٰہی ہے
﴿وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہَ لِلْکَافِرِیْنَ عَلیٰ الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا﴾ ( ’’اور اللہ تعالیٰ کافروں کوایمان والوں پر غلبہ ہر گز نہ دے گا‘‘)
جن: میں توبہ کرتا ہوں اور اس عورت کو چھوڑ دینے کا پختہ عہد کرتا ہوں ، اور دوبارہ اس کے پاس کبھی نہیں آؤں گا۔
اس طرح اس عورت کو اللہ تعالیٰ نے شفا دی، اس پر میں اللہ کا شکرگزار ہوں ، کچھ عرصے بعد اس کا خاوند میرے پاس آیا اور اس نے خوشخبری دی کہ اب اس کی بیوی خیر یت سے ہے۔
تیسرا نمونہ:ایک عورت کا خاوند میرے پاس آیا اور کہنے لگا: وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے اور میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، اور یہ ناپسندیدگی بغیر اسباب کے اچانک آگئی ہے، جبکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں ، میں نے اس کے خاوند کے سامنے اس پر قرآن مجید کو پڑھا تو اس پر مرگی کا دورہ پڑ گیا اور اس میں جو جن تھا اس کے ساتھ میری یہ گفتگو ہوئی:
٭ کیا تم مسلمان ہو؟