کتاب: محدث شمارہ 236 - صفحہ 10
بنوری ٹاؤن، کراچی اور جامعہ اشرفیہ سے رابطہ کیا۔ دونوں طرف سے مجھے ملنے والے متضادجوابات آپکو ارسال کر رہی ہوں ، آپ براہِ مہربانی دونوں کو پڑھ کر میری رہنمائی کریں ۔ (ڈاکٹر نوشین ، لاہور) ٭ دونوں فتوؤں پر تعاقب از شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ : اس وقت میرے سامنے دیو بندی مکتب ِفکر جامعہ اشرفیہ، لاہور اور جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن ،کراچی کے دو فتوے ہیں ۔ دونوں میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اختیاری سکیموں میں استعمال شدہ رقم پر سود وصول کرنا حرام ہے جبکہ حکومت کی طرف سے ہر ملازم کو جبری کٹوتی کے ساتھ ریٹائرمنٹ پر جو رقم ملتی ہے، یہ مباح ،حلال اور قابل استعمال ہے…واضح ہو کہ دونوں فتوے کئی ایک وجوہات کی بنا پر محل نظر ہیں ،بالاختصار ملاحظہ فرمائیں : اولاً : اس رقم کا باہمی رضا مندی کے بغیر حاصل ہونا اصولِ تجارت کے منافی ہے، حدیث میں ہے ’’انما البیع عن تراضٍ‘‘ ’’یعنی خرید و فروخت کی بنیاد بائع اور مشتری کی باہمی رضا مندی پر ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ بسند حسن) ثانیاً: اس پر شرح منافع متعین ہوتی ہے جو نفع و نقصان کی بنیاد پر شراکت کے شرعی ضابطہ کے خلاف ہے ثالثا ً: تیسری وجہ یہ ہے کہ ایسی رقوم کو حکومت غالباً سودی کاروبار پر لگاتی ہے اور سود مطلقاً حرام ہے۔ قرآنی آیات ﴿حَرَّمَ الرِّبٰوا ﴾ اور ﴿لاَ تَاکُلُوْا الرِّبٰوا﴾ کا تقاضا یہی ہے اور صحیح حدیث ہے ’’الحلال بیّن والحرام بیّن وبینھما مشتبھۃ فمن ترک ما شُبّہ علیہ من الإثم کان لما استبان اَترک… الخ‘‘ (بخاری، باب الحلال بین) ’’حلال واضح ہے او رحرام بھی واضح او ران کے مابین کچھ متشابہ امور ہیں ، جس نے کسی ایسے گناہ کو ترک کیا جو اس پر مشابہ تھا تووہ صریح گناہوں سے زیادہ اجتناب کرے گا‘‘ صحیح بخاری کے ابواب و تراجم باب تفسیر المشبھات اور باب ما یتنزہ من الشبھات کو خلوص کے ساتھ پڑھا جائے تو بات کھل کر سامنے آجائے گی۔ ان شاء اللہ اسی بنا پر علامہ ابن ہمام حنفی ،ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں رقم طراز ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب قرآن کی آیت حرّم الربوا اور آیت لاتأکلوا الربوا میں دارالحرب کی قید کے بغیر مطلق طور پر سود کے حرام ہونے کا حکم نازل ہوچکا ہے تو قرآن کے اس مطلق حکم سے کوئی گنجائش اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مکحول کی مرسل روایت کو صحیح اور قابل حجت ثابت نہ کر لیا جائے۔ بلکہ اس مرسل روایت کو اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو علمائے احناف کے لئے اس طرح خبرواحد سے قرآنِ مجیدکے مطلق حکم پر دارالحرب کی قید کا بڑھانا اُصول مذہب ِ حنفی کے برخلاف کیونکر جائز ہوسکتا ہے۔ موصوف کا مطلب یہ ہے کہ حنفی فقہاء کا دارالحرب میں سود کو جائز قرار دینا شرعی نصوص کے