کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 7
وغیرہ… الخ) ور صحیح مسلم میں ہے ((الأیم أحق بنفسها من ولیها )) لفظ الأیم کی تشریح میں حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں ((ظاهر هذا الحدیث أن الأیم هي الثیب التي فارقت زوجها بموت أوطلاق لمقا بلتها بالبکر وهذا هو الأصل في الأیم)) اس حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ أیم بمعنی ثیّب ہے وہ عورت جو اپنے خاوند سے موت یا طلاق کے ذریعے علیحدگی اختیار کرچکی ہو اس لئے یہ لفظ بِکر (کنواری) کے مقابلہ میں آیا ہے: لفظ الایم میں اصل یہی ہے۔‘‘ لہٰذا مذکورہ صورت میں عورت اپنے بیٹے کو ولی بنا کر آگے نکاح کرسکتی ہے۔ ویسے بھی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے بیٹے کی ولایت کو فوقیت دی ہے۔ فرماتے ہیں ’’الْاِبْنُ أوْلیٰ‘‘ (المغنی لابن قدامہ ۹/۳۵۵) ’’بیٹا ولایت کا زیادہ حقدار ہے‘‘ …اگرچہ یہ مسلک عام حالات میں قابل اعتناء نہیں کیونکہ اصلاً تولیت میں باپ کو فوقیت حاصل ہے۔ لیکن عورت کی حالت کے پیش نظر یہاں قابل اعتبار ہے۔ ٭ سوال:وتر آخری نماز ہونی چاہئے یا وتروں کے بعد نوافل اَدا کئے جاسکتی ہیں ۔ چند اَحباب کہتے ہیں کہ وتر آخری نماز ہونی چاہئے اور جو دو رکعت ثابت ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔ تراویح اور وتر ادا کرنے کے بعد نوافل اَداکرسکتے ہیں ؟ جواب: وتر کے بعد دو رکعت پڑھنا سنت سے ثابت ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث ہے ((ثمَّ یُوترثمَّ یصلّي وهو جالس)) (۱/۲۵۴) ’’پھر آپ وِتر پڑھتے پھر بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے‘‘… شارحِ مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ((قلت الصواب أن هاتین الرکعتین فعلهما بعد الوتر جالسا لبیان جواز الصلوة بعد الوتر)) ’’میں کہتا ہوں کہ درست بات یہ ہے کہ یہ دو رکعتیں وتروں کے بعد جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر پڑھی ہیں تو وتر کے بعد نماز پڑھنے کا جواز بیان کرنے کے لئے پڑھی ہیں ‘‘… اس سے معلوم ہوا کہ شارحین حدیث نے ان دو رکعتوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ نہیں سمجھا ۔ ہاں البتہ بعض اہل علم نے کہا کہ ((اجعلوا آخر صلوتکم باللیل وترا))(اپنی رات کی آخری نماز کو وِتر بناؤ)تووِتر کو رات کی آخری نماز بنانے والی یہ حدیث قولی ہے جبکہ وتر کے بعد نماز والی حدیث فعلی ہے۔ فعل میں چونکہ خاصہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا احتمال ہوتا ہے بخلاف قول کے، اس لئے بہتر ہے وتر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔ ٭ سوال: رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا بدعت ہے یا سنت یا دونوں طرح درست ہے؟ جواب: قِیام میں ہاتھ باندھنا مسنون ہے جبکہ شریعت کی اصطلاح میں قیام کا اِطلاق صرف قبل از رکوع حالت پر ہے جس میں قراء ت بھی کی جاتی ہے ورنہ لازم آئے گا کہ ہر رکعت میں دو سجدوں کی