کتاب: محدث شمارہ 235 - صفحہ 6
دار الافتاء شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی جامعہ لاہور الاسلامیہ ( رحمانیہ ) ٭ خاوند کی اجازت کے بغیر اپنے مال کا وقف ٭ مطلقہ عورت کابیٹے کو ولی بنا کر نکاح کرنا ٭ رکوع کے بعد والے قیام میں ہاتھ باندھنا ٭ وتر نماز کے بعد مزید نوافل پڑھنا ٭ دو سجدوں کے درمیان انگلی کو حرکت دینا ٭ نکاح کے بعد رخصتی سے قبل بیوی کی وراثت ٭ بیت الخلاء میں وضو کے وقت بسم اللہ پڑھنا ٭ غسل کے بعد بدن کو تو لئے سے پونچھنا ٭سوال :کیا عورت بلا اِجازت شوہر اپنے مال کو وقف کرسکتی ہے؟ نیز کیا مطلقہ اپنے بیٹے کو ولی بنا کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے؟ (محمد یونس :مدرّس جامعہ تقویہ الاسلام ، لاہور) جواب : عورت اپنے مال میں تصرف کرنے میں خود مختار ہے۔ شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شرعاً عورت خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے۔ جبکہ خاوند عورت کو نہیں دے سکتا کیونکہ اس کا نفقہ /خرچ بذمہ شوہر ہے۔ اس امر کی واضح دلیل حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی کا قصہ ہے جب اس نے اپنے خاوند پر صدقہ کرنا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ استحسان فرمایا: ((ولھا أجران: أجر القرابة وأجر الصدقة)) (صحیح بخاري: باب الزکوٰة علی الزوج) ’’اس کے لئے دوہرا اجر ہے: قرابت کا اجر اور صدقے کا اجر۔‘‘ اسی بنا پر اہل علم نے کہا ہے کہ خاوند اگر بیوی کی چوری کرلے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا بخلاف بیوی کے کیونکہ اس کا حق اس کے مال میں موجود ہے۔اسی استحقاق کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی بیوی ہند کو اپنا اور اولاد کا حق بلا اجازت ِشوہر وصول کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (صحیح بخاري باب إذا لم یُنفق الرجل… الخ) ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی کے قصہ میں حافظ ابن حجر مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : (( وفیه الحثّ علی صلة الرحم وجواز تبرّع المرأة بمالها بغیر إذن زوجها)) اس حدیث میں صلہ رحمی کی ترغیب ہے اور بلا اجازت شوہر عورت کا اپنے مال سے صدقہ کرنے کا جواز ہے ہاں البتہ شوہر کے مال سے اگر وہ صدقہ کرنا چاہے تو اجازت واضح یا عرفی تفصیلی یا اجمالی ہونی چاہئے۔ (فتح الباری ۳/۲۹۴ اور۳/۳۳۰) ٭ جہاں تک مسئلہ ولایت کا تعلق ہے تو اس میں مطلقہ کی رائے کو ولی کی رائے پر فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث ہے ’’لاتنکح الأیم حتی تستأمر‘‘ (باب لا ینکح الأب